• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رضاعت کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

کیا فرماتےہیں مفتیان کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ محمد ***کسی لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا  ہے لیکن اس کی دادی کا کہنا ہے کہ اس کی ماں نے اس لڑکی کو بچپن میں ایک مرتبہ دودھ پلایا تھا اور اس کی ماں کہتی ہے کہ مجھے معلوم  نہیں کہ میں نے اس لڑکی کو دودھ پلایا ہے،  جبکہ لڑکی کی ماں وفات پا چکی ہے  اور لڑکی بھی دادی کی تصدیق نہیں کرتی اور دادی کے پاس اس بات کا کوئی گواہ بھی نہیں ہے، لڑکی کے تمام رشتےدار اس نکاح پر راضی ہیں، مذکورہ صورت میں اگر شریعت نکاح کی اجازت دیتی ہے تو نکاح کریں گے، کیا  مذکورہ صورت میں احمد کا نکاح اس لڑکی سے جائز ہے؟

لڑکے کا بیان:

میں محمد ***بن ****ہوں، میرا غالب گمان یہ ہے کہ میری دادی اس بارے میں جھوٹ بول رہی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں محمد احمد مذکورہ لڑکی  سے نکاح کرسکتا ہے۔

توجیہ:  حرمت رضاعت کے ثبوت کے لیے یا تو لڑکے کا اقرار کرنا ضروری ہے یا کم از کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے۔ مذکورہ صورت میں نہ تو لڑکا اقرار کرتا ہے اور نہ ہی دادی کے پاس اپنے قول پر شرعی گواہ (دو مرد یا  ایک مرد اور دو عورتیں) موجود ہیں لہذا مذکورہ صورت میں حرمت ثابت نہ ہوگی۔

بدائع الصنائع (3/414) میں ہے:

وأما بيان ما يثبت به الرضاع  أي يظهر به فالرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة. أما الإقرار فهو أن يقول لامرأة تزوجها: هي أختي من الرضاع أو أمي من الرضاع أو بنتي من الرضاع ويثبت على ذلك ويصبر عليه فيفرق بينهما؛ لأنه أقر ببطلان ما يملك إبطاله للحال فيصدق فيه على نفسه، وإذا صدق لا يحل له وطؤها والاستمتاع بها فلا يكون في إبقاء النكاح فائدة فيفرق بينهما سواء صدقته أو كذبته؛ لأن الحرمة ثابتة في زعمه……… وكذلك إذا أقر الزوج بهذا قبل النكاح فقال هذه أختي من الرضاع أو أمي أو ابنتي وأصر على ذلك وداوم عليه؛ لا يجوز له أن يتزوجها ولو تزوجها يفرق بينهما……… وأما البينة فهي أن يشهد على الرضاع رجلان أو رجل وامرأتان ولا يقبل على الرضاع أقل من ذلك ولا شهادة النساء بانفرادهن وهذا عندنا

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (7/306) میں ہے:

’’(سوال ۶۹۱): ایک مرد بیوہ عورت سے عقد کرنا چاہتا ہے، چنانچہ مرد نے اپنی ہمشیرہ کے ذریعہ سے اس عورت سے عقد کی بابت کہلوایا، اس نے جواب دیا کہ میں نے ان کی والدہ کا ایک مرتبہ دودھ پیا ہے اور شاید خود ان کی والدہ ہی نے مجھ سے کہا تھا کہ تیری ماں سورہی تھی اور تو رو رہی تھی تو میں نے تیرے منہ میں دودھ دے دیا تھا، اور کسی سے مجھ کو یہ بات معلوم نہیں ہوئی اور بیوہ مذکورہ نے دریافت کرنے پر یہ بھی کہا کہ شاید میری غلطی ہو، کسی اور کی بابت کہا ہو اور مجھ کو یہ یاد رہا۔ پچیس تیس برس کی بات ہے۔ مرد نے چند روز کے بعد بیان کیا کہ بہت غور کے بعد کچھ خیال مجھ کو بھی ہوتا ہے کہ اس بیوہ عورت نے مجھ سے بھی شاید یہ بات کہی تھی مگر شبہ کے ساتھ یہ خیال ہوتا ہے پورے طور پر یاد نہیں ہے۔

(الجواب): چونکہ اس صورت میں پوری شہادت شرعیہ موجود نہیں ہے یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ دودھ پلانے کی نہیں ہیں تو شرعا حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور وہ عورت بیوہ اس مرد کی بہن رضاعی نہیں ہوتی اور شبہ سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لہٰذا از راہِ فتویٰ وحکمِ شریعت اس مرد کو اس عورت بیوہ سے نکاح کرنا درست ہے۔ البتہ اگر وہ مرد اس عورت کی اس بارے میں تصدیق کرے تو احوط ہے کہ اس سے نکاح نہ کرے اور اگر مرد اس کی تصدیق نہیں کرتا اور بیوہ کو بھی یقینی طور سے مرد کی والدہ کا قول یاد نہیں اور یاد بھی ہو تو وہ صرف ایک عورت کا قول ہے تو اس حالت میں حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور نکاح صحیح وجائز ہے۔ قال في الدر المختار: وحجته حجة المال وهي شهادة عدلين أو عدل عدلتين ..الخ فقط‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved