• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رہن رکھی زمین کو مرتہن کی اجازت کےبغیربیچناجائزنہیں

  • فتوی نمبر: 17-255
  • تاریخ: 18 مئی 2024

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:

صورت مسئلہ یہ ہے   کہ لکی مروت میں ایک ملک صاحب تھا جس کا  نام ستار خان تھا، اس  کی ملکیت میں 16000  کنال زمین تھی، اس زمین میں کچھ  تووہ ہےجو ملک صاحب کو انگریزوں نے پاکستان بننے سے پہلے دی تھی اور کچھ وہ ہےجوملک صاحب نے خود خریدی تھی۔ حکومت پاکستان نے یہ قانون بنایا کہ جس کے پاس دس ہزار کنال سے زائدزمین ہے  اس سے حکومت بقیہ زمین کی کٹوتی کرے گی۔ اس قانون کے پیش نظرملک صاحب سے حکومت نے چھ ہزار کنال کی کٹوتی کی اوردس ہزار کنال سے زائد زمین پر(یعنی چھ ہزارکنال پر) حکومت نے قبضہ کر لیا پھریہ چھ ہزارکنال زمین حکومت نے ان لوگوں کو دی جو بطور مزارعت اس زمین میں کاشتکاری کر رہے تھے، تو ان کاشتکاروں میں ایک میرا دادا بھی تھا، میرے دادا کو اس چھ ہزارکنال میں سے80 کنال زمین ملی۔ میرے دادا کو جو 80 کنال زمین ملی یہ زمین پہلے ہی سے ایک صاحب حمید الله خان کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی یعنی یہ چھ ہزار کنال جو حکومت نے ملک صاحب سے قبضہ کر لی تھی اس میں سے کچھ زمین ملک صاحب نے کسی سے خریدی تھی اور یہ خریدی ہوئی زمین بائع نے حمید الله خان نامی شخص کے پاس رہن رکھوائی ہوئی تھی یعنی ملک صاحب نے رہن ہی کی صورت میں یہ زمین بائع سے خریدی تھی اور حمید الله سے رہن کو ابھی چھڑایا نہیں تھا کہ یہ مرہونہ زمین حکومت نے میرے دادا کے نام پر انتقال کر دی، تو میرے دادا نے مرتہن حمید الله خان سے مقدمہ عدالت میں لڑا، سالوں سال اس پر لگے، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ نے میرے دادا کے حق میں فیصلہ کیا۔ بالآخر جب سپریم کورٹ میں اپیل کی تو مرتہن فوت ہو گیا، تو پھر سپریم کورٹ نے یہ 80 کنال زمین میرے دادا کے حوالہ کر دی۔اب اس زمین کو ہمارا استعمال کرنااور اس سے منافع لینا ازروئے شریعت جائز ہے یا ناجائز؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جو زمین آپ کے دادا کے نام منتقل ہوئی ہے وہ ملک صاحب نے اس حالت میں خریدی تھی کہ وہ بائع کی جانب سےحمیداللہ خان نامی شخص کے پاس گروی(رہن) رکھی ہوئی تھی اورگروی( رہن) رکھی ہوئی چیز کی بیع مرتہن( یعنی جس کے پاس گروی رکھوائی گئی ہے )کی اجازت کے بغیر نافذ نہیں ہوتی۔

مذکورہ صورت میں مر تہن( یعنی حمیداللہ خان )اس کی بیع پر راضی نہ تھا، اسی وجہ سے اس نے جھگڑا کیا اور بات عدالت تک گئی حتی کہ جب مرتہن یعنی حمیداللہ خان فوت ہوا تو زمین آپ کے دادا کے نام منتقل ہوئی، لہذا اول تو اس زمین کی بیع ملک صاحب کے حق میں ہی نافذ نہیں ہوئی اور اگر اس بیع کو ملک صاحب کے حق میں نافذ بھی سمجھ لیں تو حکومت کاملک صاحب کی زمین پر قبضہ  کرنا خلاف شرع تھا،جس کی و جہ سے یہ زمین ملک صاحب کی ملکیت سے نکل  کرحکومت کی ملکیت میں داخل نہیں ہوئی اورجب حکومت اس کی مالک ہی نہیں بنی تو حکومت یہ زمین آپ کے دادا کو دینے کی حقدار نہیں تھی جس کی وجہ سے یہ زمین آپ کے دادا کی ملکیت میں داخل نہیں ہوئی، لہذا آپ لوگوں کا اس زمین کو استعمال کرنا اور اس سے منافع حاصل کرنا جائز نہیں۔

مجلہ میں ہے:

مادة 747:لو باع الراهن بدون رضى المرتهن لا ينفذالبيع ولا يطرأ خلل على حق حبس المرتهن ولكن إذا أوفى الدين يكون ذلك البيع نافذا وكذا إذا أجازو المرتهن البيع يكون نافذا ويخرج الرهن من الرهنية ويبقى الدين على حاله ويكون ثمن المبيع رهنا في مقام المبيع وإن لم يجز المرتهن البيع فالمشتري يكون مخيرا إن شاء انتظر إلى أن يفك الراهن الرهن وإن شاء رفع الأمر إلى الحاكم حتى يفسخ البيع

احسن الفتاوی 230/8میں ہے:

سوال :کیا کوئی مسلم حکومت بغیر معاوضہ ادا کیے کسی بھی مسلمان شخص کی ملکیت جائداد غیر منقولہ خصوصا زرعی اراضی لینے اور مالک کو اس کی ملکیت سے ہمیشہ کے لیے محروم کرنے کی مجاز ہے ؟خواہ اس جائداد کو تحویل میں لینے کا مقصد کچھ بھی ہو میں شرعی عدالت میں مقدمہ کرنا چاہتا ہوں کہ گذشتہ حکومتوں نے لوگوں کی ملکیت قطعی بغیر کسی معاوضہ کے حاصل کرلی کیا یہ شریعت اسلامیہ میں جائز ہے؟

الجواب :کسی کے لیے ملک غیر میں اس کی رضا کے بغیر کسی قسم کا تصرف جائز نہیں ،اس کی حرمت قرآن وحدیث کے علاوہ مسلمات عقلیہ میں سے ہے واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

فتاوی حقانیہ 424/6میں ہے:

الغرض تحدید ملکیت کے جواز میں جبکہ دینی وعلمی لحاظ سے بیشمار فتنوں اور اقتصادی ومالی لحاظ سے بیشمار حق تلفیوں اور بددیانتیوں کا خطرہ ہے تو کیوں بے احتیاطی سے کام لیکر فتنوں کا دروازہ کھولا جائے لہذا تحدید ملکیت کے جواز یا حکومت کو اس کا حق دینے کا فتوی میری سمجھ میں نہیں آتا اور میرا اس سے قطعا اتفاق نہیں۔

اسلام اور جدید معاشی مسائل 56/4میں ہے:

تحدید ملکیت کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس کے پاس زائد زمینیں ہیں وہ اس سے چھین لی جائیں گی یعنی اگرچہ اس نے جائز طریقہ سے حاصل کی ہیں لیکن اس سے زائد ہیں تو وہ چھین لی جائیں گی اس معنی میں تحدید ملکیت ناجائز ہے اور اس کا کہیں کوئی جواز وثبوت نہیں ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved