- فتوی نمبر: 3-147
- تاریخ: 24 مارچ 2010
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
ہماری ایک موبائل فون ریپئرنگ کی دوکان ہے۔ مارکیٹ میں اصول اور دستور ہے کہ جو آدمی بھی اپنا موبائل ریپئر کروانے کے لیے آتا ہے۔ اگر موبائل کے اندر کوئی خرابی ہو یعنی جس کے لیے موبائل کھولنا پڑے۔ تو اس میں مارکیٹ کا یہ اصول ہے کہ گاہک سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ایک تو موبائل ریپئرنگ کے دوران پیدا ہو جانے والی کسی اور خرابی کے ہم ذمہ دار نہیں، دوسرا متعلقہ خراب چیز کو نکال کر ہم درست چیز لگائیں گے جس کی قیمت مع مزدوری یہ ہے ، لیکن اس کے باوجود چیز کے صحیح ہو کر چلنے کی ہماری ذمہ داری نہیں، ہم اپنے پیسے ہر صورت لیں گے۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ موبائل فون الیکٹرونکس کی چیزوں میں سے بہت بے اعتبار کی چیز ہے کہ کیا پتہ کسی وقت بھی کوئی خرابی کسی بھی وجہ سے بن جائے۔
اگر ہم خرابیوں کی ذمہ داری بھی اپنے سر میں تو بسا اوقات ہزاروں کے موبائل ہمارے سر پڑ جائیں گے۔گاہک مذکورہ دونوں شرطوں کے باوجود ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں دےدیتا ہے اور راضی ہو جاتا ہے۔ تو کیا ایسا کرنا اور یہ معاملہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر معاملہ واقعی ویسے ہی ہے جیسے مذکورہے۔ تو جائز ہے۔
و حكم الأجير المشترك أن ماهلك في يده من غير صنعه فلا ضمان عليه في قول أبي حنيفة رحمه الله سواء هلك بأمر يمكن التحرز عنه أم لا يمكن و قال أبو يوسف و محمد رحمهما الله إن هلك بأمر يمكن التحرز عنه فهو ضامن و إن هلك بأمر لا يمكن التحرز عنه فلا ضمان كذا في المحيط و بقولهما يفتى اليوم لتغير أحوال الناس و به يحصل صيانة أموالهم كذا في التبيين . ( عالمگیری ، 4/ 500 )۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved