- فتوی نمبر: 20-352
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان
استفتاء
1-مفتی صاحب اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ جان بوجھ کر چھوڑ دے تو کیا ساٹھ روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہی کفارہ ہے یا کوئی اور حل بھی ہے ؟
2-اگر کفارہ قسم یا کفارہ صوم کے لئے مدرسہ کے طلباء میں چاہے وہ شرعی تعداد سے زیادہ ہوں سالن یادیگ بنا کر دو وقت بھیج دیں تو کیا اس صورت میں کفارہ ادا ہو جائے گا جبکہ موجودہ دور میں اس طرح مساکین کو تلاش کرنا مشکل ہے؟
اور اگر ایدھی یا سیلانی وغیرہ کے دستر خوانوں پر کھانا حاضر کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟وہاں لوگ تو زیادہ ہوتے ہیں لیکن غریب اور مالدار ہونا معلوم نہیں ہوتا ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کا کیا مطلب ہے ؟شروع سے رکھا ہی نہیں تھا یا رکھ کر توڑ دیا تھا؟
جواب وضاحت دونوں کا حکم بتا دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1- رمضان کا روزہ بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر نہ رکھنا بڑے گناہ اور محرومی کی بات ہے تاہم توبہ و استغفار اور ایک روزے کی جگہ ایک روزے کی قضا کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ اور رمضان کا روزہ رکھ کر بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر توڑ دینا یہ بھی بڑے گناہ اور محرومی کی بات ہے اور اس فعل پر توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ اس ایک روزے کی قضاکرنا اور بطورکفارے کے مسلسل ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہے اور جو شخص کسی عذر (مثلا بیماری یا بڑھاپے )کی وجہ سے گرمی سردی کسی موسم میں مسلسل ساٹھ روزے نہ رکھ سکتاہو وہ بطور کفارے کے ساٹھ مستحق زکوۃ لوگوں کو صبح شام پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے یا فی مسکین پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دے دے۔
2-کفارہ کی ادائیگی کے لیے اگر کھانا کھلانا ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں تملیک ،اور اباحت ،تملیک کی صورت یہ ہے کہ ہر مسکین کو نصف صاع گندم یا آٹا یا ایک صاع جو دے دیے جائیں یا اس کی قیمت دے دی جائے اور اباحت کی صورت یہ ہے کہ مساکین کو دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھلا دیا جائے۔اباحت کی صورت میں مقدار کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ ان مساکین کے سیر ہونے کا اعتبار ہوگا جتنا بھی وہ کھائیں ۔نیزدونوں صورتوں میں کھانے والوں کامستحق ہونا ضروری ہے اور کفارات کے مستحق بھی وہی ہیں جو زکوۃ کے مستحق ہیں نیز کفارات میں جو تعداد مقرر ہے اس مقرر تعداد کو دو وقت کا کھانا کھلانا بھی ضروری ہے ایک وقت میں ایک فقیر کو کھانا کھلایا اور دوسرے وقت میں کسی دوسرے فقیر کو کھانا کھلا دیا تو یہ کفارہ کی ادائیگی کیلئے کافی نہ ہوگا جبکہ عام طور پر اجتماعی دسترخوانوں میں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتااس لیے یہاں دینے سے کفارہ ادا نہ ہوگاایسی صورت میں کسی مدرسے میں کفارے کی رقم دیدی جائے اورانہیں بتادیاجائے کہ یہ کفارے کی رقم ہے تاکہ وہ اسے اس کےحساب سے خرچ کریں۔
اگر مدرسے والے اور ایدھی اور سیلانی والے کفارات کو ان کے مصرف پر شرعی طریقےکے مطابق صرف کرنے کا اہتمام کریں تو ان کو کفارات کا کھانا تیار کرکے دینا درست ہے اور اگر وہ کفارات کو مصرف کے مطابق صرف کرنے کا اہتمام نہیں کرتے تو ان کو کھانا تیار کر کےدینے سے کفارہ بھی ادا نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی (350/2) میں ہے :
ومن رأى هلال رمضان ۔۔۔صام فإن أفطر قضى فقط۔
فتاوی شامی (3/442) میں ہے :
(وإن جامع) المكلف آدميا مشتهى (في رمضان أداء) لما مر (أو جومع) أو توارث الحشفة (في أحد السبيلين) أنزل أو لا (أو أكل أو شرب غذاء) ۔۔(عمدا)۔۔۔راجع للكل (أو احتجم) أي فعل ما لا يظن الفطر به كفصد وكحل ولمس وجماع بهيمة بلا إنزال أو إدخال أصبع في دبر ونحو ذلك (فظن فطره به فأكل عمدا قضى) في الصور كلها (وكفر)
فتاوی شامی (3/448) میں ہے:
قوله ( ككفارة المظاهر ) مرتبط بقوله وكفر أي مثلها في الترتيب فيعتق أولا فإن لم يجد صام شهرين متتابعين فإن لم يستطع أطعم ستين مسكينا لحديث الأعرابي المعروف في الكتب الستة فلو أفطر ولو لعذر استأنف إلا لعذر الحيض وكفارة القتل يشرط في صومها التتابع أيضا وهكذا كل كفارة شرع فيها العتق نهر ۔
فتاوی ہندیہ (148/2) میں ہے:
وإن اختار الطعام فهو على نوعين طعام تمليك وطعام إباحة طعام التمليك أن يعطي عشرة مساكين كل مسكين نصف صاع من حنطة أو دقيق أو سويق أو صاعا من شعير كما في صدقة الفطر فإن أعطى عشرة مساكين كل مسكين مدا مدا إن أعاد عليهم مدا مدا جاز وإن لم يعد استقبل الطعام ۔۔۔وان اختار التكفير بطعام الإباحة يجوز عندنا وطعام الإباحة أكلتان مشبعتان غداء وعشاء أو غداءان أو عشاءان أو عشاء وسحور والمستحب أن يكون غداء وعشاء بخبز وإدام ويعتبر الإشباع دون مقدار ………ولوغدى عشرة وعشى عشرة غيرهم لم يجزئ وكذا إذا غدى مسكينا وعشى آخر عشرة أيام لم يجزئ۔
فتاوی ہندیہ(1/513) میں ہے :
ولا يجزيه أن يعطي من هذه الكفارة من لا يجزيه أن يعطيه من زكاة المال۔
نوٹ :کفارہ صرف تب ہےجب مندرجہ ذیل طریقوں سے روزہ توڑاہو۔
وہ شخص جس میں روزے کے واجب ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہوں رمضان کے اس ادا روزہ میں جس کی نیت صبح صادق سے پہلے کر چکا ہو عمد اً بدن کے کسی جوف میں اس کے قدرتی یا مصنوعی منفذ (Opening)سے کوئی ایسی چیز پہنچائے جو انسان کی دوا یا غذا میں مستعمل ہوتی ہو گو وہ بہت ہی قلیل ہو حتیٰ کہ ایک تل کے برابر ہی ہو یا جماع کرے یا کرائے۔ لواطت بھی اسی حکم میں ہے۔ جماع میں خاص حصے کے سر کا داخل ہو جانا کافی ہے۔ منی کا خارج ہونا بھی شرط نہیں ۔ مگر یہ بات شرط ہے کہ جماع ایسی عورت سے کیا جائے جو قابل جماع ہو بہت کم سن لڑکی نہ ہو جس میں جماع کی قابلیت پائی نہیں جاتی۔ ان سب صورتوں میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوں گے۔
مسئلہ:روزے کے توڑنے سے کفارہ جب ہی لازم آتا ہے جب کہ رمضان میں روزہ توڑ ڈالے۔ رمضان کے سوا کسی اور روزہ کے توڑنے سے کفارہ واجب نہیں ہوتا اگرچہ وہ رمضان کی قضا ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ:اگر کسی روزہ دار عورت نے جان بوجھ کر کچھ کھا پی لیا اور روزہ توڑ دیا۔ اس کے بعد اسی دن اس کو حیض آگیا تو اس پر کفارہ واجب نہ ہوگا۔ اسی طرح اگر روزہ دار نے روزہ توڑ دیا پھر اسی دن بیمار ہوگیا تب بھی کفارہ نہ ہوگا۔
مسئلہ:جو لوگ حقہ، سگریٹ پینے کے عادی ہوں یا کسی نفع کی غرض سے پئیں روزہ کی حالت میں پینے سے ان پر کفارہ اور قضا دونوں واجب ہوں گے۔
مسئلہ:لوبان وغیرہ کوئی دھونی سلگائی پھر اس کو اپنے پاس رکھ کر سونگھا تو روزہ جاتا رہا اور قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوں گے۔
مسئلہ:کسی دوا کی بھاپ لینے یا تنگی نفس میں Inhalerاستعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوتے ہیں البتہ اگر Inhalerیعنی پمپ کا استعمال جان جانے کے خوف سے کیا ہو تو صرف قضا واجب ہوگی۔
مسئلہ:اگر کوئی عورت کسی نابالغ بچے یا کسی مجنون سے جماع کرائے تب بھی اس کو قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔
مسئلہ:جماع میں عورت اور مرد دونوں کا عاقل ہونا شرط نہیں حتیٰ کہ اگر ایک مجنون ہو اور دوسرا عاقل تو عاقل پر کفارہ لازم ہوگا۔
مسئلہ:اگر سرمہ لگایا یا خون نکلوایا یا تیل ڈالا پھر سمجھا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا اور پھر قصداً کھالیا تو قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں ۔
مسئلہ:پیٹ کا زخم اگر معدہ یا آنت میں کھلا ہو پھر زخم میں دوا ڈالی گئی ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور انتہائی مجبوری نہ ہو تو کفارہ بھی لازم ہوگا۔
مسئلہ:اگر کوئی مقیم روزے کی نیت کے بعد مسافر بن جائے اور تھوڑی دور جا کر کسی بھولی ہوئی چیز کے لینے کو اپنے مکان پر واپس آئے اور وہاں پہنچ کر روزہ کو فاسد کر دے تو اس کا کفارہ دینا ہوگا اس لیے کہ اس پر اس وقت مسافر کا اطلاق نہ تھا گو وہ ٹھہرنے کی نیت سے نہ گیا تھا اور نہ وہاں ٹھہرا۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved