• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

رخصتی نہ کرنے کی بنیاد پر خلع

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا نام ****ہے۔ میرا نکاح 2012 میں ہوا تھا، اب 2020 ہوگیا ہے ابھی تک میری رخصتی نہیں ہوئی۔ میرے والد نے رشتہ داروں کو کہا کہ میرے بھائی یعنی لڑکے کے والد کو کہو کہ اتنا عرصہ گزر گیا ہے رخصتی کا نام نہیں لے رہا تو انہوں نے اس کو کہا وہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لیتا رہا اور لڑکے نے کئی دفعہ کہا ہے کہ میں نے اس لڑکی کے ساتھ شادی نہیں کرنی اور کئی رشتہ داروں کو یہ بات کہی ہے اور اس بات کے گواہ بھی موجود ہیں۔ ان گواہوں نے ہمیں اطلاع دی۔ میرا والد اور لڑکے کا والد سگے بھائی ہیں۔ وہ اس بنا پر کہتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو کبھی نہیں کہوں گا کہ میری بھتیجی کو طلاق دے جبکہ لڑکا بار بار یہ بات کہتا ہے کہ میں نے شادی نہیں کرنی اور مسجد میں بیٹھ کر میرے والدین کو کہا کہ میں شادی کے قابل نہیں ہوں اس وجہ سے کہ میں بیمار ہوں سات سال ’’ٹی بی‘‘ کا علاج ہوتا رہا لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ لہذا اس صورتحال میں، میں نے عدالت میں جاکر خلع کا دعوی دائر کیا تقریبا تین ماہ بعد گری ہوئی۔ اب اس صورتحال میں ہماری رہنمائی فرمائیں کہ شرعا یہ نکاح فسخ ہوا ہے یا نہیں؟ اس بات پر فتوی تحریر فرمائیں۔  شکریہ

لڑکے کا بیان:

لڑکے کو دار الافتاء سے فون کیا گیا اور خلع کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے۔

لڑکے سے مزید پوچھا کہ آپ نے رخصتی کیوں نہیں کی؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہم خاندان کے لوگ تقریبا دو ماہ پہلے رخصتی کے لئے گئے تھے لیکن لڑکی والوں نے نہیں کی۔

لڑکے سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اب رخصتی کروانا چاہتے ہیں تو لڑکے نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی۔

(پھر لڑکی کے بھائی نے دار الافتاء آکر یہ حلفیہ بیان دیا):

ہم نے جب خلع کا کیس کیا تو سب رشتہ داروں کو بتایا تھا اور لڑکے کو بھی معلوم تھا۔ لڑکے کے والد سے وکیل کا فون پر رابطہ رہتا تھا اور ہر پیشی پر وکیل فون کرتا تھا اور بات بھی ہوتی تھی۔ کیس کے دوران ہی ایک پیشی گزرنے کے بعد لڑکا بمع رشتہ داروں کے آیا تھا ہم نے کہا کہ ہم سوچ کربتائیں گے۔ جب وہ چلا گیا تو ہم نے رابطہ کیا تو پھر کہنے لگا کہ میں نے رخصتی نہیں کروانی۔ لڑکے نے جو دار الافتاء میں بتایا ہے کہ مجھے خلع کا علم نہیں یہ اس کی غلط بیانی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں ذکرکردہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند باوجود استطاعت کے امساک بالمعروف یا تسریح بالاحسان یعنی بیوی کو اپنے ساتھ بسانے پریا طلاق یا خلع دینے پرآمادہ نہیں،بلکہ وہ معاملے کو لٹکاکر رکھنا چاہتا ہے جبکہ بیوی کو معلقہ بناکررکھنا (یعنی نہ معروف طریقے کے مطابق اسے بسانا اور نہ ہی خلع یا طلاق دے کر اس کی جان چھوڑنا)ظلم ہے اورایسی صورت میں نکاح فسخ کرکے ظلم کا رفع کرناقاضی کا فرض ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں عدالت کے ذریعے فسخِ نکاح کرنا درست ہے۔

اسلام کے عائلی قوانین (ص192)میں ہے:

’’ترک مجامعت اور بیوی کو معلقہ بناکر رکھنا بھی تفریق کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کیونکہ حقوق زوجیت کی ادائیگی واجب ہے ۔حقوق زوجیت ادا نہ کرنا اور بیوی کو معلقہ بنا کررکھنا ظلم ہے اور رفع ظلم قاضی کا فرض ہے‘‘

کفایت المفتی (298/5) میں ہے:

’’سوال: ہندہ منکوحہ کئی سال سے اپنے گھر بیٹھی ہے۔اس کا شوہر جو شرعاً بعدعقد ہوا ہے کسی شہر میں گوشہ نشین بنا بیٹھا ہے۔ جب رخصتی کا خط اس کے پاس جاتا ہے تو تاریخ مقررہ میں نہیں آتا بلکہ خود تاریخ معین کرتا ہے اور اس میں بھی نہیں آتا۔ ہم لوگ برابر منتظر رہے کہ آئے اور شادی ہو مگر کئی تاریخیں ٹل گئی ہیں۔اور یہ قصہ اب کا ہے، ورنہ اس سے قبل جب نکاح ہوا تھا دونوں یعنی ہندہ اور اس کا شوہر نابالغ اورنابالغہ تھے۔ ماں باپ کی خوشی پر بچے نے ایجاب و قبول کیا تھا۔ اور باپ کی قدرت سے باہر ہے کہ ایسی صورت میں جب کہ میرے کچھ اختیارات ان پر ہیں رخصت کیونکر ہوگی اوربچی غریب کا کیا حال ہوگا۔ کچھ شرعی طریقہ ایسا فرمایئے ، یا ایسا حکم خاص صادر فرما دیں جس سے بچی ہندہ کی داد رسی ہوسکے۔ آپ حقیقت میں شرعی حاکم ہیں۔ اگر مناسب سمجھیں تو اس قسم کے جوابات الجمعیۃ کے احکام و حوادث میں شائع فرمادیں۔

جواب (۴۸۹): اگر عورت کے لئے گزارے اور حفظ عصمت کی کوئی صورت نہیں ہے اور خاوند ان امور کی پرواہ نہیں کرتا تو عورت کو حق ہے کہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت سے اپنا نکاح فسخ کرائے او رپھر عدت گزار کر دوسرا نکاح کرے۔ (محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ، دہلی)‘‘

نوٹ:مذکورہ صورت میں چونکہ رخصتی سے پہلے نکاح فسخ کروایا گیا ہے اس لئے بیوی مہر کی حق دار نہیں ہوگی۔

چنانچہ البحر الرائق میں ہے:

فی الذخیرة فرق بین النفقة وبیان المهر فان الفرقة اذا جاء ت من قبل المرأة قبل الدخول یسقط المهر سواء کانت عاصیة او محقة لان المهر عوض من کل وجه ولهذا لایسقط بموت احدھما فاذا فات العوض بمعنی من جهة من له العوض سقط۔

بدائع الصنائع (295/2) میں ہے:

المهر كله يسقط بأسباب أربعة منها الفرقة بغير طلاق قبل الدخول بالمرأة وقبل الخلوة بها فكل فرقة حصلت بغير طلاق قبل الدخول وقبل الخلوة تسقط جميع المهر سواء كانت من قبل المرأة أو من قبل الزوج وإنما كان كذلك لأن الفرقة بغير طلاق تكون فسخا للعقد وفسخ العقد قبل الدخول يوجب سقوط كل المهر لأن فسخ العقد رفعه من الأصل وجعله كأن لم يكن

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved