• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

رخصتی سے پہلے طلاق دینے کا حکم

استفتاء

ميرا 15 سال پہلے نکاح ہوا وہ اس طرح کہ  میں پاکستان میں تھی میری فیملی کے لوگ وزیر آباد گھر میں جمع تھے میں بھی وہاں موجود تھی۔ لڑکا فرانس میں رہتا ہے، نکاح کے وقت وہ لندن میرے بھائی کے پاس آیا تھا جہاں بھائی کے اور دوست بھی تھے۔ ٹیلی فون کے ذریعے ہمارا نکاح ہوا، نکاح کے بعد میں نے نکاح نامہ پر دستخط بھی کئے تھے۔ لیکن اس کے بعد ابھی تک رخصتی نہیں ہوسکی اور نہ میرا شوہر آج تک پاکستان آیا،نہ کبھی خرچہ بھیجا۔ ہمارے تعلقات خراب ہوگئے۔ ایک دفعہ انہوں نے فون پر کم وبیش 6 سال پہلے مجھے غصے میں کہا تھا کہ ’’تمہیں میری طرف سے طلاق ہے‘‘  میں نے تنگ آکر عدالت سے خلع لے لیا ہے جس کی کاپی ساتھ لف ہے۔ برائے مہربانی ہماری رہنمائی کریں، ہمارے لئے کیا حکم ہے؟

کیا طلاق ہوگئی ہے؟ اگر ہوگئی ہے تو عدت کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کو ایک بائنہ طلاق واقع ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح (بالفرض اگر وہ درست بھی تھا تو) ختم ہوگیا ہے، لہٰذا عورت اگر آگے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

رد المحتار مع در مختار (4/86) میں ہے:

ومن شرائط الإيجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرين وإن طال…

نیز (4/98) میں ہے:

(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)

بدائع الصنائع (3/174) میں ہے:

وأما الصريح البائن فبخلافه وهو أن يكون بحروف الإبانة أو بحروف الطلاق، لكن قبل الدخول حقيقة أو بعده لكن مقرونا بعدد الثلاث نصا أو إشارة أو موصوفا بصفة تدل عليها، إذا عرف هذا فصريح الطلاق قبل الدخول حقيقة يكون بائنا.

فتح القدیر (باب العدۃ 4/276) میں ہے:

أن الطلاق قبل الدخول لا تجب فيه العدة قال الله تعالى {إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها}

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved