• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کے وقت کلمہ پڑھوانے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ  بوقت نکاح زوجین سے کلمہ پڑھوانا کیسا ہے؟  اسلامی شادی نامی کتاب میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی طرف منسوب قول لکھا ہے کہ آج کل بوقت نکاح زوجین سے کلمہ پڑھوانا چاہیے کیونکہ بے باک ہونے کی وجہ سے لوگ کلمات کفریہ بک جاتے ہیں۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ  اگر کلمہ وغیرہ پڑھوانا  چاہیے تو ذرا وضاحت فرما دیں کہ اور  کیا کیا چیز پڑھوانی چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نکاح کے وقت زوجین سے کلمہ پڑھوانا احادیث  سے ثابت نہیں البتہ  اگر زوجین میں سے کسی کے خلاف شرع عقائد رکھنے کا علم ہو تو تجدید ایمان کے لئے اس سے  صرف کلمہ پڑھوا لے  یہی کافی ہے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں اور  ہر جگہ اس کا التزام صحیح نہیں۔

نوٹ: کتاب اسلامی شادی میں  ہر کسی سے کلمہ پڑھوانے   کا نہیں لکھا  کتاب کی اصل عبارت یوں ہے:

اسلامی شادی،باب ۱۰: نکاح خوانی اور اس کے متعلقات( طبع: توصیف پبلی کیشنرز لاہور، صفحہ نمبر 124 ) میں ہے:

"نکاح کے وقت کلمہ پڑھانا: ایک شخص نے دریافت کیا کہ بوقت نکاح زوجین کو کلمہ پڑھانے کا جو دستور ہے وہ کیساہے؟  فرمایا کہ اس کا کوئی ثبوت میری نظر سے تو گذرا نہیں مگر ایک مولوی صاحب مجھ سے کہتے تھے کہ میں نے بحر الرائق میں دیکھا ہے اگر ہے تو امر استحبابی ہو گا وجوب کا حکم نہ ہو گا۔پھر سائل نے عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں شرفاء سے کلمہ نہ پڑھوانا چاہئے رزیل لوگوں سے مثلاً کنجڑے‘ قصائی سے پڑھوانا چاہئے (جو جہالت کی وجہ سے کلمہ کفر بک جاتے ہیں اور احساس بھی نہیں ہوتا) فرمایا (کہ نہیں) بلکہ (آج کل تو) شرفاء (روشن خیال لوگوں) ہی سے پڑھوانا چاہئے کیونکہ یہ لوگ بڑے بے باک ہوتے ہیں جس کو جو جی چاہتا ہے کہہ ڈالتے ہیں حتی کہ اللہ و رسول ( صلی اللہ علیہ و سلم )کو بھی نہیں چھوڑتے اس لئے ان کے ایمان میں نقصان کا زیادہ احتمال ہے”

خیر الفتاوی، کتاب النکاح، متفرقات نکاح (طبع: مکتبہ امدادیہ ملتان، جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 588) میں ہے:

"سوال: آج کل نکاح پڑھاتے وقت نکاح خوانوں کے مختلف طرز دیکھنے کو ملتے ہیں، بعض نکاح خواں مولوی صاحب دولھا کو کلمہ پڑھواتے ہیں  اگرچہ دولھا صحیح العقیدہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اور بعض تو پورے چھ کلمے پڑھاتے ہیں اور بعض کلموں کی بجائے ایمان مفصل یا ایمان مجمل پڑھاتے ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ  کلمے پڑھوانا یا ایمان مفصل وغیرہ پڑھوانا دولھا اور دولھن کو، کیا یہ ضروریات نکاح میں سے ہے؟ اور اس کی کیا حقیقت ہے؟

الجواب: عقد نکاح کے وقت یہ طریقہ یعنی کلمہ پڑھوانا وغیرہ احادیث سے اور صحابہ کرامؓ اور مجتہدینؒ کرام سے ثابت نہیں ہے اور جس شخص کے عقائد درست ہوں، صحیح العقیدہ ہونے کا یقین ہو تو پھر خطبہ مسنونہ پڑھ کر ایجاب و قبول کر دینا چاہیے لیکن آج کل بعض اوقات نا دانستگی میں زبان سے کلمہ کفر نکال دیا جاتا ہےیا دین سے دوری کی بنا پر عقائد میں خرابی ہوتی ہے، اسی لئے اگر نکاح خواں کو شبہ ہو کہ شاید دولھا یا دلہن کے عقائد خلاف شرع ہیں تو ان کو تجدید ایمان کیلئے کلمہ پڑھوا لینا ضروری ہے۔ ہر جگہ اس کا التزام کرنا غلطی ہے”

فتاوی دارالعلوم دیوبندمکمل و مدلل   ، کتاب النکاح (طبع:دار الاشاعت کراچی،  جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 53)میں  ہے:

"سوال ۱۹: عند النکاح اگر ہر دو صفت ایمان و شش کلمہ نہ پڑھا جائیں اور محض ایجاب و قبول ہی فرض سمجھ کر چھوڑ دیے جائیں تو کیا حکم ہو گا؟

الجواب :  نکاح میں  ایجاب وقبول ضروری ہے بدون ایجاب وقبول کے نکاح منعقد نہ ہوگا، اور صفت ایمان اور کلموں  کا پڑھانا اس وقت انعقاد نکاح کے لئے شرط نہیں  ہے بدون پڑھائے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔۔۔الخ”

فتاوی رحیمیہ، کتاب النکاح (طبع: دار الاشاعت کراچی، جلد نمبر 8صفحہ نمبر 158) میں ہے:

"نکاح کے انعقاد کے لئے کلمہ ،ایمان مجمل اور ایمان مفصل پڑھانا ضروی نہیں  ہے تاہم بعض مرتبہ عوام الناس کلمہ سے ناواقف ہوتے ہیں  تو ایسے وقت تجدیدکلمہ میں  مضائقہ نہیں  بلکہ اس میں  احتیاط ہے، خواص میں  اس کی ضرورت نہیں  "

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved