• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ساری جائیداد بیٹوں کو دے کر بیٹیوں کو محروم کرنا

استفتاء

ایک شخص کے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، اس نے اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی بیٹوں کو دے دی تھی، اور قبضہ بھی کرا دیا تھا، بعد میں احساس ہوا کہ بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا گیا تو بیٹوں سے مطالبہ کیا کہ اب تم اپنی بہنوں کو کچھ رقم دے دو، تاکہ وہ بالکل محروم نہ رہیں۔  بیٹوں ن والد صاحب کے مشورے سے طے کیا کہ فی بہن پچاس ہزار کی رقم دے دیتے ہیں۔ چنانچہ بہنوں کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ ہم اب سب سے پہلے ایک بہن کو ادائیگی کرنے لگے ہیں، لیکن اس سے پہلے ہمیں اس اشٹام پیپر پر دستخط کر کے دو جس میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ آئندہ آپ بہنیں جائیداد میں سے ہم سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گی۔ (بھائی بہنوں کو اس موجودہ جائیداد سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرنا چاہ رہے تھے جو اس وقت بھائیوں کی ملکیت تھی اور ان کو اندیشہ تھا کہ بہنیں اس جائیداد کے بارے میں والد صاحب کی زندگی کے بعد کوئی جھگڑا نہ کھڑا کریں)۔ بہنوں نے دستخط سے انکار کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہمیں اس وراثت سے دستبردار کرنا چاہ رہے ہیں جو ہمیں والد صاحب کی زندگی کے بعد ملے گی (خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو)۔ اس پر رقم کی ادائیگی موقوف کر دی گئی اور تقریباً چھ سال بیت گئے، اس عرصے میں والد صاحب بار بار بیٹوں سے مطالبہ کرتے رہے کہ جس رقم کا تم نے ذمہ لیا ہے اسے ادا کرو، لیکن کبھی کبھار یہ بھی کہتے تھے کہ یہ لوگ ادائیگی نہیں کرتے اور شاید نہ کر سکیں گے لہذا میں خود ہی ان کو کچھ نہ کچھ دے دوں گا۔

اب والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے اور بیٹے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے ذمہ اس رقم کی ادائیگی اب بھی واجب ہے یا ان کے انکار کی وجہ سے یا والد صاحب کے متعدد بار اپنے ذمہ لے لینے کی وجہ سے ساقط ہو چکی؟ کیونکہ اشٹام والے واقعے کے بعد (بقول ایک بھائی) پانچوں نے یہ طے کیا تھا کہ دستخط کروائے بغیر ہم ادائیگی نہیں کریں گے جبکہ باقیوں کو یہ بات کرنا یاد نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو جائیداد والد نے اپنی زندگی میں بیٹوں کو دے کر ان کا قبضہ کروا دیا تھا۔ اس کے مالک اور حقدار وہی ہیں جن کو دی گئی تھی۔ البتہ بیٹیوں کو نہ دینا گناہ کی بات ہے، اگر کوئی چیز ایسی ہو جو والد اپنی ملکیت پر چھوڑ کر فوت ہوئے تھے اس میں وراثت جاری ہو گی جس میں سے بیٹوں کو 2-2 حصے اور بیٹیوں کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

رہے وہ پیسے جن کے دینے کا والد نے کہا تھا تو بیٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ کچھ رعایت کریں اور بیٹوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بہنوں کو مزید کچھ دے کر معاملے کو ختم کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved