• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ساری جائیداد صرف اکلوتی بیٹی کو زندگی میں ہبہ کرنا

استفتاء

میری والدہ حیات ہیں۔ میں ان کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میری والدہ مطلقہ ہیں میں نے بھی خلع لیا ہوا ہے اور والدہ کے ساتھ رہتی ہوں، میرے دو بیٹے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ والدہ کی ساری جائیداد مجھے ملے ، کیونکہ دیگر رشتہ دار صاحب حیثیت ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں ان کی جائیداد کی تنہا وارث ہوں یا مجھے کس طرح ساری جائیداد مل سکتی ہے؟

وضاحت: والدہ بھی مجھے سارا دینا چاہتی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ دیگر و رثاء صاحب حیثیت ہیں اور آپ ضرورت مند بھی ہیں۔ اس لیے اگر والدہ اپنی زندگی میں سارا حصہ آپ کو دینا چاہیں تو دے سکتی ہیں۔

في رد المحتار (12/ 579):

قوله (و لو وهب في صحته كل المال للولد جاز و أثم) أي و قصد حرمان بقية الورثة كما يتفق ذلك فيمن ترك بنتاً و خاف مشاركة العاصب.

و في المرقاة المفاتيح (6/ 257):

و عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إن الرجل ليعمل و المرأة بطاعة الله ستين سنة ثم يحضرهما الموت فيضاران في الوصية فتجب لهما النار .. رواه احمد

قوله (فيضاران في الوصية) من المضارة أي يوصلان الضرر إلى الوارث بسبب الوصية للأجنبي بأكثر من الثلث أو بأن يهب جميع ماله لواحد من الورثة كيلا يرث وارث آخر من ماله شيئاً فهذا مكروه و فرار عن حكم الله تعالى ذكره ابن الملك و فيه أنه لا يحصل لهما ضرر لآخر. اللهم إلا أن يقال معناه فيقصدان الضرر.

فتاویٰ محمودیہ (11/ 390) میں ہے:

’’بحالت صحت و تندرستی اگر باقاعدہ ہبہ کر کے لڑکی کا قبضہ کرا دے تو بلا شبہ صحیح ہو گا اور لڑکی مالکہ ہو جائے گی اور آمدنی اس کے لیے درست ہو گی لیکن دیگر ورثاء و مستحقین کو نقصان پہنچانے کی نیت سے ایسا کرنا گناہ ہے۔‘‘ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved