• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ساس کے ساتھ بوس و کنار وغیرہ کا حکم

استفتاء

السلام علیکم یہ 2011ء کا واقعہ ہے میری بیوی چلے میں تھی اور بیٹی کی ولادت ہوئی تھی اور اس دن ہمارے بیوی اور شوہر کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، میری طبیعت غصے والی ہے اور ہمارے درمیان اکثر جھگڑا رہتا ہے، جس دن جھگڑا ہوا تھا میرا بیوی کے ساتھ اس رات میں لیٹا ہوا تھا، بیوی ساتھ چار پائی پر لیٹی ہوئی تھی اور ساتھ والے بیڈ پر میں لیٹا ہوا تھا، اور میری دو بیٹیاں بھی اسی کمرے میں سوئی ہوئی تھیں۔رات کے تقریباً بارہ ایک بجے کے قریب میری ساس نے مجھے اٹھایا اور گلے سے لگایا اور میں چونک گیا اور پھر میں ان کے اوپر آگیا اور میں نے بوس و کنار کیا، میں نے ان کے پیٹ کے اوپر ہاتھ پھیرا انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور سینے پر لے آئیں، پیٹ اور سینے پر ہاتھ بغیر کسی حائل کے پھیرا تھا، میری ساس کی عمر اس وقت تقریباً 55 سال کی تھی۔ اور میرے ذکر میں انتشار بھی تھا۔

اتنے میں میری بیوی کی آنکھ کھل گئی اور اس نے ہمیں دیکھ لیا اور سامنے والے کمرے میں چلی گئی اور میں بھی ان کے پیچھے گیا اور میں بیوی کو سمجھایا کہ یہ میری ماں ہے، وہ مجھے ویسے ہی پیار کر رہی تھی، اور ہم نے کپڑے نہیں اتارے اور میری ساس نے پورے کیڑے پہنے ہوئے تھے اور کمرے میں زیرو کا بلب بھی جل رہا تھا، اس موقع کا مجھے 2016ء میں پتہ چلا کہ یہ بڑا گناہ ہے۔ اس وقت سے اب تک میں بہت پریشان ہوں۔ براہ مہربانی میری اصلاح کی جائے۔ اور اس واقعہ سے پہلے اور بعد میں کبھی بھی ہمارے درمیان ایسی حرکت نہیں ہوئی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سائل نے اپنی ساس کے ساتھ بوس و کنار اور پیٹ وغیرہ پر ہاتھ پھیرنے کی جو حرکت کی ہے وہ سخت گناہ کی بات ہے اس پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا اور آئندہ کے لیے ایسی حرکت سے باز رہنے کا پختہ عزم کرنا ضروری ہے۔ تاہم بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر ایسی صورت میں سائل کی بیوی سائل پر حرام نہیں ہوئی۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’فقہ اسلامی‘‘ تالیف مفتی عبد الواحد صاحب (34 تا 49)۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved