- فتوی نمبر: 17-364
- تاریخ: 17 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > عشر و خراج کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جمعہ کے بیان میں ایک امام صاحب نے حقوق العباد وغیرہ پر بات کی ،اس بیان کے دوران انہوں نے ایک بات یہ کہی کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صدقہ فطر غیر مسلموں کو بھی دیا جاسکتا ہے (اس کے بعد انہوں نے اس پرمزید کچھ نہیں کہایعنی یہ کہ فتوی اس پر نہیں ہے یا نہیں؟وغیرہ)
1۔کیا یہ قول امام ابو حنیفہؒ سے ثابت ہے؟
2۔اور کیا اس قول پرفتوی ہے؟
3۔اوراگر اس قول پرفتوی نہیں ہے توعوام میں ایسی بات کرنا جس پر فتوی نہ ہو درست ہے؟ جبکہ شروع سے کہا جاتا رہا ہو کہ صدقہ فطر غیر مسلموں کو نہیں دیا جا سکتا ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ یہ قول امام ابو حنیفہؒ سے ثابت ہے، البتہ اس میں اتنی بات مزید ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بھی زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ صدقہ فطر مسلمان کو دیا جائے۔
2۔ اس قول پر فتوی نہیں ہے، بلکہ فتوی امام ابو یوسف کے قول پر ہے جس کے مطابق غیر مسلم کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں۔
3۔ عوام کو وہی قول بتانا چاہیے جو راجح اور مفتی بہ ہو۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری 1/410 میں ہے:
و اما اهل الذمةفلا یجوز صرف الزکاۃ الیهم بالاتفاق و یجوز صرف صدقة التطوع الیهم بالاتفاق و اختلفوا فی صدقة الفطر والنذور والکفارات قال ابو حنیفة و محمدرحمهمااله یجوز الا ان فقراء المسلمین احب الینا کذا فی شرح الطحاوی
شامی 3/353 میں ہے:
(ولا)تدفع (الی ذمی) لحدیث معاذ (وجاز)دفع (غیرهاو غیر العشر)والخراج (اليه)ای الذمی و لو واجبا کنذر و کفارۃ و فطرۃ خلافا للثانی و بقوله یفتی
© Copyright 2024, All Rights Reserved