• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

صدقہ کی حقیقت واقسام اورمصرف

استفتاء

(۱)صدقہ کیا ہے ؟(۲)کن لوگوں پر لگتا ہے ؟(۳)کیا صدقہ اورمالی مدد ایک ہی چیز ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔صدقہ وہ مال ہے جو کسی غریب (مستحق زکوٰۃ)کو محض اللہ تعالی کی رضاجوئی کےلیے دیا جائے۔

2۔صدقہ صرف انہیں لوگوں کو لگتاہے جنہیں زکوۃ لگتی ہے ۔اگر غیر مستحق زکوٰۃ کو صدقہ کی رقم دی جائے تو صدقہ نہیں رہتی بلکہ ہدیہ (گفٹ)بن جاتی ہے۔

3۔صدقہ اورمالی امداد کا ایک ہونا ضرور ی نہیں ،کیونکہ غریب (مستحق زکوٰۃ)کی مالی امداد صدقہ ہے،جبکہ امیر (غیر مستحق زکوٰۃ)کی مالی امداد ہدیہ (گفٹ)ہے۔

البحر الرائق (7/ 290)

 وَالْفَرْقُ أَنَّ الصَّدَقَةَ يُرَادُ بها وَجْهُ اللَّهِ وهو وَاحِدٌ فَلَا شُيُوعَ وَالْهِبَةُ يُرَادُ بها وَجْهُ الغني وَهُمَا اثْنَانِ وَالصَّدَقَةُ على الْغَنِيِّ مَجَازٌ عن الْهِبَةِ كَالْهِبَةِ من الْفَقِيرِ مَجَازٌ عن الصَّدَقَةِ لِأَنَّ بَيْنَهُمَا اتِّصَالًا مَعْنَوِيًّا وهو إن كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا تَمْلِيكٌ بِغَيْرِ بَدَلٍ فَيَجُوزُ اسْتِعَارَةُ أَحَدِهِمَا لِلْآخَرِ فَالْهِبَةُ لِلْفَقِيرِ لَا تُوجِبُ الرُّجُوعَ وَالصَّدَقَةُ على الْغَنِيِّ تُجَوِّزُ الرُّجُوعَ

حاشية ابن عابدين (8/ 459)

قوله ( هبة ) قال في البحر والصدقة على الغني مجاز عن الهبة كالهبة من الفقير مجاز عن الصدقة

لأن بينهما اتصالا معنويا وهو أن كل واحد منهما تمليك بغير بدل فيجوز استعارة أحدهما للآخر فالهبة للفقير لا تجوز الرجوع والصدقة على الغني تجوز الرجوع

حاشية ابن عابدين (8/ 461)

وأخرج بالهبة الصدقة أي للفقير فإنه لا يصح الرجوع فيها لأن القصد فيها الثواب وقد حصل حموي  والمراد بالهبة ما كان هبة لغني فلو كانت لفقير فلا رجوع لأنها صدقة

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 47):

"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه

 كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر؛ لعموم قوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتحل الصدقة لغني»؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث؛ لكونه غسالة الناس؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني.وأما صدقة التطوع فيجوز صرفها إلى الغني؛ لأنها تجري مجرى الهبة”.

کفايت المفتی (3/323)میں ہے:

غنی کو نفلی صدقہ دینا

(سوال )  یہاں   پر زبردست نزاع ہے کہ آیا غنی آدمی جس پر زکوٰۃ  دینی فرض ہے صدقہ نافلہ کامال کھا سکتا ہے یا نہیں ؟ایک فریق مدعی ہے کہ غنی من علیہ الزکوۃ بلا روک ٹوک  صدقہ نافلہ کھا سکتا ہے اس پر شرعاً کوئی مواخذہ نہیں صدقہ نافلہ کے اکل میں غریب و امیر کا کوئی امتیاز نہیں دوسرا فریق مدعی ہے کہ غنی من علیہ الصدقہ کے لئے صدقہ نافلہ کا بطور صدقہ کے کھانا ہرگز شرعاً جائز نہیں ہوسکتا ورنہ امراء کے مقابلہ میں غرباء کو کوئی پوچھے گا ہی نہیں ۔ المستفتی  نمبر  ۱۱۰۴ غلام محمد صاحب ( ملتان)

(جواب ۳۹۸)  غنی  مالک نصاب کو اگر صدقہ نافلہ دیا جائے  تو وہ صدقہ نہیں رہتا ہبہ یا ہدیہ ہوجاتا ہے یعنی دینے والے  کو صدقہ کا ثواب نہیں ملے گا  اور غنی اگر کھالے گا تو صدقہ کھانے والا نہ ہوگا بلکہ ہدیہ کھانے والا  قرار دیا جائے گا (۱) فقط   محمد کفایت اللہ کان اللہ  لہ ‘دہلی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved