• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صدقات واجبہ و غیر واجبہ کے لیے الگ الگ مخزن و مصرف کا ثبوت

استفتاء

تمام  امارات اسلامیہ خلفاء راشدین و دیگر میں اموال واجبہ زکاه وعشر اور غیر واجبہ  بیت المال میں لائے جاتے تهے، جس سے تعمیرات، تنخوا جات، اور دیگر ضروریات پر خرچ کئے جاتے تهے۔محقق بے نظیر کشمیری کی رائے سادات کو زکوٰۃ کی دینے میں جواز کا ہے، کیا امارات اسلامیہ کی بیت المال میں اس طرح کی کوئی مستند مروی شده  تعیین ہے، جس میں واجبہ اور غیر واجبہ کیلئے الگ الگ مخزن اور مصرف ہو، کیا صدقات واجبہ ان مصارف ما فی قولہ تعالی: {انما الصدقات للفقراء…… التوبه} مخصوصہ کے علاوه خرچ کرنا ممکن نہیں؟ اس طرف توجہ بهی دلا دوں،کہ مفتی فرید صاحب دارالعلوم حقانیہ اکوڑه خٹک پاکستان نے  بهی علماء خراسان کی حوالہ سے فتاوی فریدیہ میں قربانی کی کھالوں کی قیمت کا خرچ تعمیراتی کاموں میں جواز کا لکھا ہے، ایک نظیر یہ بهی بیان کی جاتی ہے، کہ حرمین شریفین میں بهی قربانی کی کهالیں خرچ کی جاتی ہیں، کیا زکوٰۃ کی استعمال میں امارت اور عوام کیلئے حکم مختلف ہوگا یا ایک جیسا.؟ کیونکہ ہم کالج میں زکوٰۃ سکالر شپس حکومت پاکستان کی بیت المال سے تقسیم کرتے ہیں، اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کیجئے اور ذہنی خلجان دور فرمائیں….   والسلام و اجرکم علی اللہ….

مطلوبہ سوالات:

{1}    کیا امارات اسلامیہ کی بیت المال میں اموال واجبہ و غیر واجبہ کیلئے الگ الگ مخزن اور مصرف مقرر تهے….؟

{2}   انما الصدقات للفقراء…. والی آیت میں جن مصارف کا ذکر ہے، ان کے علاوه تعمیر/ تنخواه/اور امراء پر خرچ کرنے سے صدقات واجبہ اداء ہو جاتے ہیں.؟

{2}   صدقات واجبہ مثلا:زکاه/عشر/قربانی کی کهالوں کی قیمت/مال نذر/فطرانہ/فدیہ صوم و صلاه/کفارات قسم، ظہار /صدقہ و دم جنایات وغیره کی خرچ میں کوئی فرق ہے یا سب کیلئے مصرف آیت مذکوره کی ثمانیہ مصارف ہیں.؟

{3}   صدقات واجبہ کی خرچ کرنے میں عوام اور امارت کیلئے ایک جیسا حکم ہے یا مختلف.؟

{4}   مصارف ثمانیہ کے علاوه کہیں صدقات واجبہ  خرچ کرنے سے مالک بری الذمہ ہوگا یا نہیں، نہ ہونے کی صورت میں  وکیل چاہے جبراً ہو یا رضاء ًذمہ دار ہے یا موکل مختار ہو یا مجبور..؟

{5}ڈاکٹر ***کے حوالے سے کہیں پڑها تها کہ صحابہ کرام کے زمانے میں مصارف زکاه میں کافی وسعت تهی، اس کی کیا حقیقت ہے…؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ صدقات اور غیر صدقات کے اموال کو جدا جدا رکھنے کا اہتمام خود نبی کریم ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ سے ثابت ہے۔ چنانچہ  بخاری شریف میں امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے:

وسم الإمام إبل الصدقة بيده

(ترجمہ: امام کا صدقہ کے اونٹوں کو اپنے ہاتھ سے علامت لگانا)

پھر اس عنوان کے تحت مندرجہ ذیل حدیث ذکر کی ہے:

قال حدثنی أنس بن مالك رضي الله عنه، قال: «غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعبد الله بن أبي طلحة، ليحنكه، فوافيته في يده الميسم يسم إبل الصدقة»۔

(ترجمہ: حضرت انس  بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں عبد اللہ بن ابی طلحہ کو لے کر حاضر ہوا تاکہ آپ ﷺ اس کو گھٹی دیں تو میں نے آپ ﷺ کو اس حال میں پایا کہ آپ ﷺ کے ہاتھ میں علامت لگانے کا آلہ تھا، جس کے ذریعے آپ ﷺ صدقہ کے اونٹوں کو علامت لگا رہے تھے۔ ) [بخاری: 1/204، قدیمی کتب خانہ]۔

اور موطا امام مالک رحمہ اللہ میں ہے:

عن زيد بن أسلم عن أبيه :أنه قال لعمر بن الخطاب إن في الظهر ناقة عمياء فقال عمر ادفعها إلى أهل بيت ينتفعون بها قال فقلت وهي عمياء فقال عمر يقطرونها بالإبل قال فقلت كيف تأكل من الأرض؟ قال فقال عمر أ من نعم الجزية هي أم من نعم الصدقة؟ فقلت بل من نعم الجزية، فقال عمر أردتم والله أكلها، فقلت إن عليها وسم نعم الجزية…. إلخ

(حضرت اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اونٹوں میں ایک اونٹی نابینا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اونٹی کسی گھر والوں کو دیدو ، وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ حضرت اسلم رضی اللہ نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا کہ وہ اونٹی تو نابینا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ لوگ اسے اونٹوں کی قطار میں باندھ دیا کریں گے۔ حضرت اسلم رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا وہ زمین سے کیسے چرے گی؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ اونٹی جزیہ کے اونٹوں میں سے ہے یا صدقہ کے اونٹوں میں سے؟ حضرت اسلم نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا کہ وہ جزیہ کے اونٹوں میں سے ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم تم نے تو اسے کھانے کا ارادہ کر لیا۔ اس پر حضرت اسلم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا  کہ اس اونٹی پر جزیہ کے اونٹوں کی علامت موجود ہے۔۔۔ الخ)۔ [مؤطا امام مالک مع شرح اوجز المسالک: 6/116،  طبع بیروت]

حضرت مولانا مفتی  محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

عہد رسالت اور خلفاء راشدین ہی کے زمانہ کا تعامل ہمیشہ یہ رہا ہے کہ اگرچہ اسلامی بیت المال میں مختلف قسم کے اموال

جمع ہوتے تھے، لیکن صدقات کا مال بالکل علیحدہ اس کے مخصوص مصارف ہی میں صرف کیا جاتا تھا، اسلامی حکومت کی عام ضروریات اور مسلمانوں کے اجتماعی اور رفاہی اداروں وغیرہ میں صدقات کا مال صرف نہ ہوتا تھا، بلکہ ایسے مصارف عموماً مال فیء سے کیے جاتے تھے، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور پورے خاندان بنو ہاشم کے لیے صدقات کا استعمال ممنوع تھا، اور اس حکم کی پابندی اس حد تک تھی کہ ایک مرتبہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صدقہ کا ایک چھوارہ منہ میں رکھ لیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے منہ سے نکال لیا اور فرمایا کہ آل محمد ﷺ کے لیے صدقہ حلال نہیں (بخاری ومسلم)۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو ایک چھوارہ پڑا ہوا ملا تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کا ہے تو میں اس کو اٹھا کر کھا لیتا۔ (بخاری ومسلم)

ایک طرف تو صدقات کے بارے میں اس قدت شدت ہے کہ آل محمد اور آپ کے ذوی القربیٰ کو صدقات سے اس طرح روکا گیا ہے، دوسری طرف بیت المال کے دوسرے مد فیئ خمس غنیمت اور خمس فیئ میں آپ کے ذوی القربیٰ کا باقاعدہ حصہ قرآن کریم میں منصوص ہے:

واعلموا أنما غنمتم من شيء فإن لله خمسه وللرسول ولذي القربى [أنفال].

اور سورہ حشر میں مصارف فیئ کے ذکر میں  ’’فلله وللرسول ولذي القربى‘‘ آيا ہے، اور تاریخ اسلام شاہد ہے کہ آنحضرت ﷺ کے ذوی القربیٰ اور بنو ہاشم کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا تھا اگر بیت المال میں اموال صدقات اور خمس غنیمت وفیئ وغیرہ کے مدات سب گڈ مڈ ہوتے تو صدقات کو بنی ہاشم سے روکنے کی کیا صورت ہوتی، اسی طرح اغنیاء صحابہ رضی اللہ عنہم جو صدقات قبول کرنے سے بڑی شدت کے ساتھ احتیاط فرماتے تھے مگر بیت المال کا وظیفہ لیتے تھے۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے دودھ پیا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ صدقہ کا تھا تو قے کر کے نکال دیا، اس کے باوجود بیت المال کے دوسرے مدات سے حصہ لینا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بھی ثابت ہے۔ رسول اللہ کریم ﷺ نے صفوان بن امیہ کو بحالت کفر کچھ مال عطا فرمایا،  جس کو بعض حضرات نے یہ قرار دیا کہ یہ مؤلفۃ القلوب ہونے کی حیثیت سے مال صدقہ دیا گیا ہے مگر حفاظ حدیث بیہقی ، ابن سید الناس ، ابن کثیر، ابن حجر وغیرہم نے روایات سے ثابت کیا ہے کہ یہ مال صدقات کا نہیں، بلکہ غزوہ حنین کے مال غنیمت کے خمس میں سے تھا جو بیت المال کا حق تھا (تفسیر مظہری: 1/235)۔ اگر بیت المال میں صدقات اور خمس غنائم وغیرہ علیحدہ علیحدہ نہ ہوتے تو اس کہنے کا کوئی موقع ہی نہ تھا۔

اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ بیت المال کے مختلف مدات عہد رسالت اور عہد خلفائے راشدین ہی کے زمانہ سے جدا جدا رہتے تھے اور ہر ایک کے جداگانہ مصارف تھا اپنے اپنے مصارف میں خرچ کیے جاتے تھے، اسی بناء پر حضرات فقہاء کرام نے فرمایا کہ شرعی بیت المال کے چار حصے علیحدہ علیحدہ ہونے چائیں جن میں صرف حساب ہی علیحدہ نہیں، بلکہ اموال بھی الگ الگ رکھے جائیں تاکہ ہر ایک مد کی رقم اسی مد میں خرچ کرنے کی پوری احتیاط قائم رہے۔

در مختار کتاب الزکوٰۃ میں نظم ابن شحنہ کے چند اشعار بیت المال کے مذکورہ مدات کی تفصیل کے بارے میں نقل کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔

شرعی بیت المال کے چار مدات

اول خمس غنائم یعنی جو مال مسلمانوں کو بذریعہ جنگ حاصل ہوا ، اس کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر کے باقی پانچواں حصہ بیت المال کا حق ہے، اسی طرح خمس معادن یعنی مختلف قسم کی کانوں سے نکلنے والی اشیاء میں بھی پانچواں حصہ  بیت المال کا حق ہے نیز خمس رکاز یعنی جو قدیم خزانے کسی زمین سے برآمد ہوں اور مالک ان کا معلوم نہ ہو تو اس کا بھی پانچواں حصہ بیت

المال کا حق ہے، یہ تینوں قسم کے خمس بیت المال کے ایک ہی مد میں شامل ہیں۔

دوسری مد صدقات ہیں: جس میں مسلمانوں کی زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور ان کی زمینوں کا عشر داخل ہیں۔

تیسری مد خراج اور مال فیئ ہے: یعنی غیر مسلموں کی زمینوں کا خراج اور ان سے حاصل شدہ جزئیہ اور تجارت ٹیکس اور وہ تمام اموال جو مصالحانہ طور پر غیر مسلموں کی رضا مندی سے حاصل ہوں۔

چوتھی مد ضعائع: یعنی لا وارث مال ہے۔

ان چاروں مدات کے مصارف اگرچہ الگ الگ ہیں لیکن فقراء ومساکین کا حق ان چاروں مدات میں رکھا گیا ہے۔ (شامی کتاب الزکوٰۃ)۔ (امداد المفتین:2/ 886 تا888، رسالہ اماطۃ التشکیک فی اناطۃ الزکاۃ بالتملیک)

2۔  ’’إنما الصدقات للفقراء … إلخ‘‘ والی آیت میں جن مصارف کا ذکر ہے، ان کے علاوہ تعمیر، تنخواہ اور امراء پر براہ راست خرچ کرنے سے صدقات واجب ادا نہ ہوں گے۔

3۔ تمام صدقات واجبہ کا مصرف وہی ہیں جن کا ذکر قرآن کی آیت  ’’إنما الصدقات للفقراء … إلخ‘‘ میں آیا ہے، البتہ مؤلفۃ القلوب اس دور میں مصرف نہیں۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

قوله (أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبة هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر، فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر… وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة. (3/333، بيروت)

4۔ صدقات واجبہ کے خرچ میں عوام اور امارت دونوں کے لیے یکساں حکم ہے۔

5۔ مالک اگر خود جان بوجھ کر غیر مصرف میں خرچ کرے گا تو وہ برئ الذمہ نہ ہو گا۔

’’وکیل چاہے جبراً ہو یا رضاء ً ۔۔۔ یا مؤکل مختار ہو یا مجبور‘‘ اس عبارت سے کیا مراد ہے؟ اسے ذرا کھول کر لکھیں۔

6۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی کہی ہوئی بات کی کیا حقیقت ہے؟ یہ ان کی عبارت دیکھ کر ہی بتایا جا  سکتا ہے۔

تنبیہ 1: ’’علامہ کشمیریؒ کی رائے سادات کو زکوٰۃ دینے کی ہے۔‘‘

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پہلے بھی بعض حضرات کی یہ رائے رہی ہے۔ جو کہ جمہور کے خلاف ہے۔ نیز علامہ کشمیری رحمہ اللہ کی رائے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صدقات واجبہ وغیر واجبہ کو خلط ملط کر کے جہاں چاہیں خرچ کریں۔

تنبیہ 2: ’’فتاویٰ فریدیہ میں علماء خراسان کے حوالہ سے قربانی کی کھالوں کی قیمت کا خرچ تعمیراتی کاموں میں جائز لکھا ہے‘‘۔

فتاویٰ فریدیہ ہمارے پاس موجود نہیں کہ اسے دیکھ کر اس بارے میں کچھ کہا جا سکے۔

تنبیہ 3: ’’حرمین شریفین میں قربانی کی کھالیں خرچ کی جاتی ہیں‘‘

سے کیا مراد ہے؟ قربانی کی کھالوں کی قیمت مراد ہے یا خود کھالیں مراد ہیں؟ نیز بہر دو صورت حرمین شریفین میں خرچ کرنے سے کیا مراد ہے؟ مصارف پر خرچ کرنا مراد ہے؟ یا تعمیراتی کاموں پر؟ یا تنخواہوں میں؟

بہر حال اگر کھالوں کی قیمت کو تعمیراتی کاموں پر اور تنخواہوں میں خرچ کرنا بھی مراد ہو تو ان کا عمل حجت شرعیہ نہیں، بلکہ ان کے عمل کو شرعی اصولوں پر جانچا جائے گا، ان کے عمل کی وجہ سے شرعی اصولوں کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ فقط و الله تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved