استفتاء
محترم ! ایک مسئلہ پوچھنا ہے کہ آج کسی قاری صاحب نے یہ مسئلہ بیان کیاکہ نماز میں کندھےکو کندھے سے اور پاؤں کو پاؤں سے ملانا چاہئےورنہ شیطان درمیان میں گھس جاتا ہے جس پر نمازیوں نے اعتراض کیا کہ مسجد میں تو شیطان نہیں آسکتا۔اس لیے وہ قاری صاحب پریشان ہے اگر کسی کو اس مسئلہ کے بارے میں علم ہو تو رہنمائی فرمادیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
قاری صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ درست ہے البتہ اتنی بات ضرورہے کہ کندھوں کوکندھوں سے اور پاؤں کوپاؤں سے ملانے کا مطلب یہ ہے کہ مل مل کر کھڑ ا ہو ا جائے درمیان میں خلا نہ چھوڑا جائے باقی رہی یہ بات کہ "مسجد میں شیطان نہیں آسکتا ” یہ محض من گھڑت بات ہے اور احادیث کے خلاف ہے چنانچہ خود کندھوں کو کندھوں سے ملانے والی حدیث میں شیطان کے آنے کا تذکرہ موجود ہے اور اس کے علاوہ اور احادیث میں بھی نماز کے اندر شیطان کے آنے کا تذکرہ موجود ہے۔
سنن ابی داؤد ( 1/107باب تسویۃ الصفوف) میں ہے:
عَنْ أَبِى شَجَرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « أَقِيمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بَيْنَ الْمَنَاكِبِ وَسُدُّوا الْخَلَلَ وَلِينُوا بِأَيْدِى إِخْوَانِكُمْ ». لَمْ يَقُلْ عِيسَى « بِأَيْدِى إِخْوَانِكُمْ ». « وَلاَ تَذَرُوا فُرُجَاتٍ لِلشَّيْطَانِ وَمَنْ وَصَلَ صَفًّا وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَهُ اللَّهُ ».
ترجمہ:حضرت ابوشجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :صفوں کو سیدھا کرو اورمونڈھوں کو برابر کرو اور (صف ) میں جو جگہ خالی رہ جائے اس کو پر کرو اور اپنےبھائیوں کے لیے نرم ہو جاؤ(یعنی اپنے بھائیوں کے لیے نرم گوشہ اختیار کرو ۔۔۔اورشیطان کے لیے صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو اور جوشخص صف کو ملائےگا اللہ تعالی اس کو (اپنی رحمت سے)ملائےگااور جوشخص صف کو کاٹےگا (یعنی ٹیڑھی کرکے نماز کےلیے کھڑا ہوگا ) اللہ تعالی بھی اس کو (اپنی رحمت سے )کا ٹے گا (یعنی محروم کردےگا)۔
سنن ابی داؤد (1/106) میں ہے:
عن أبي القاسم الجدلي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثا، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه۔
ترجمہ:حضرت ابوالقاسم جدلی ؒ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ ﷺ نے تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: تم لوگ( جماعت کے لیے) صفوں کو سیدھاکرو ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دےگا ،حضرت نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخض دوسرے شخص کے مونڈھے سے مونڈھا اور گٹھنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملا کر کھڑا ہوتا۔
سنن ابی داؤد (1/87) میں ہے:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا نُودِيَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ وَلَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لَا يَسْمَعَ التَّأْذِينَ، فَإِذَا قُضِيَ النِّدَاءُ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ أَدْبَرَ، حَتَّى إِذَا قُضِيَ التَّثْوِيبُ أَقْبَلَ حَتَّى يَخْطُرَ بَيْنَ الْمَرْءِ وَنَفْسِهِ، وَيَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا اذْكُرْ كَذَا لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ، حَتَّى يَضِلَّ الرَّجُلُ أَنْ يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى "
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:جب نماز کےلیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان آوازکے ساتھ ہوا خارج کرتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہےتاکہ اذان کی آوازنہ سن سکےاور جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر (شیطان)واپس آجاتا ہےلیکن جوں ہی تکبیر (یعنی اقامت) شروع ہوتی ہے تو وہ (پھر) پیٹھ پھیرکر بھاگتا ہےاور جب تکبیر( یعنی اقامت )ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آجاتاہےاورنمازی کےدل میں وسوسہ ڈالتاہے کہتاہے فلاں بات یادکر فلاں بات یاد کران باتوں کی شیطان یاددہانی کراتاہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved