- فتوی نمبر: 15-185
- تاریخ: 12 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔گزارش ہے کہ سفر میں جوقصر نماز ہوتی ہے اگر وہ سفر میں ہی قضا ہو جائے اور قضا کرنے سے پہلے ہی آپ اپنے شہر واپس آ جائیں تو قضاء نماز قصر پڑھیں گے یا پوری؟
2۔دوسری بات یہ ہے کہ سفر میں قصر نماز ہوتی ہے۔اس کے اندر سنتیں نہیں پڑھی جاتیں۔ اگر پھر بھی کوئی سنتیں یا پوری نماز پڑھے تو کیا حکم ہے؟کیا سفر میں فجر کی سنتیں پڑھنا ضروری ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جو نماز سفر میں قضا ہو جائے مقیم ہونے کے بھی اس کی قضا قصر ہی پڑھیں گے ۔
2۔سفر میں اگر کسی جگہ آدمی ٹھہرا ہو تو سنتیں پڑھنی چاہئیں اور اگر سفر کر رہا ہو تو سنتیں چھوڑنی چاہئیں البتہ فجر کی سنتیں سفر کے دوران بھی پڑھنی چاہئیں۔ سفر میں فرض نماز ہر حال میں قصر ہی کرنی ہے جان بوجھ کر فرض نماز پوری پڑھنا جائز نہیں۔
فی رد المحتار
ولذا یقضی المسافر فائتة الحضر الرباعیة اربعا ویقضی المقیم فائتة السفر رکعتین.
فی الهندیة
ومن حکمه ان الفائتة تقضی علی الصفة التی فاتت عند الالعذر وضرورة فیقضی مسافر فی السفر مافاتته فی الحضر من الفرض الرباعی اربعا والمقیم فی الاقامة ما فاته فی السفر منها رکعتین۔
فی الدر المختار:2/603
فلو اتم مسافر ان قعد فی القعدة الاولی ثم فرضه و لکنه اساء لو عامدا لتاخیر وترک واجب القصر۔
صلی الفرض الرباعی رکعتین)وجوبا لقول ابن عباس رضی الله عنه ان الله فرض علی لسان نبیکم صلاة المقیم اربعا والمسافر رکعتین وفی الشامی تحت قوله (وجوبا)فیکره الاتمام عندنا حتی روی عن ابی حنیفة رحمه الله انه قال :من اتم
الصلاةفقد اساء وخالف السنة۔
مجمع الانهر 1/239
واختلفوا ترک السنن فقیل هو الترک ترخصا وقیل الفعل تقرباوقیل الفعل نزولا والترک سیرا والمختار الفعل امنا والترک خوفا لانها شرعت اکمال الفرض والمسافر محتاج الیه وتستثنی منه سنة الفجر عند البعض وقیل سنة المغرب.
© Copyright 2024, All Rights Reserved