- فتوی نمبر: 34-172
- تاریخ: 13 دسمبر 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > اخلاق و آداب
استفتاء
حدیث میں آیا ہے:
لیس منا من تشبه بغیرنا لا تشبهوا باليهود ولا بالنصاری فان تسلیم اليهود الاشارة بالاصابع وتسلیم النصاری الاشارة بالاکف. (رواه الترمذی)
حدیث شریف میں ہاتھ سے اشارے کے ذریعے سلام کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے تو پوچھنا یہ ہے کہ :
(1)اس میں خاص اشارے کی ممانعت ہے یا کسی بھی قسم کا اشارہ ممنوع ہے ؟
(2) اگر سلام کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا جائے تو کیا حکم ہوگا ؟
(3)اور سر کے اشارے سے سلام کرنا کیسا ہے ؟
(4)سيلوٹ مارنے کا کیا حکم ہوگا ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ حدیث میں سلام میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہود ونصاریٰ اپنے سلام میں زبان استعمال نہیں کرتے صرف اشارہ کرتے ہیں۔لہٰذا زبان سے سلام کے الفاظ کہے بغیر جو بھی اشارہ کیا جائے گا وہ ممنوع ہوگا۔
2۔ جائز ہوگا۔
3۔سر کے اشارے کے ساتھ اگر زبان سے بھی سلام کے الفاظ کی ادائیگی ہو تو جائز ہے ۔
4۔ سيلوٹ مارنے سے سلام کی سنت ادا نہ ہوگی لہذا اگر کوئی سلام کے موقع پر سيلوٹ مارنے پر اکتفاء کرے اور صرف سيلوٹ مارنے کوہی سلام سمجھے تو یہ بات شرعاً درست نہیں یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی سلام کے موقع پر زبان سے سلام کیے بغیر صرف ہاتھ سے سلام کے اشارے پر اکتفاءکرے (جوکہ از روئے حدیث ممنوع ہے) لیکن اگر کوئی سلام کے موقع پر صرف سيلوٹ مارنے پر اکتفاء نہ کرے یا اسے سلام کے قائم مقام نہ سمجھے بلکہ صرف سرکاری مجبوری کی وجہ سے متعلقہ افسر کو سيلوٹ کرے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ سيلوٹ مارنا ایک سرکاری رسم ہے کسی کی مذہبی رسم نہیں اور اس سرکاری رسم میں کسی مخصوص قوم کے ساتھ مشابہت بھی نہیں۔
مرقاۃ المفاتیح (8/470) میں ہے:
وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده أن رسول الله ﷺ قال : ليس منا) أي من أهل طريقتنا ومراعي متابعتنا (من تشبه بغيرنا) أي من غير أهل ملتنا (لا تشبهوا) بحذف إحدى التاءين أي لا تتشبهوا باليهود ولا بالنصارى زيد لا لزيادة التأكيد، فإن تسليم اليهود الإشارة بالأصابع، وتسليم النصارى الإشارة بالأكف بفتح فضم جمع كف، والمعنى لا تشبهوا بهم جميعاً في جميع أفعالهم خصوصاً في هاتين الخصلتين ولعلهم كانوا يكتفون في السلام أورده أو فيهما بالإشارتين من غير نطق بلفظ السلام الذي هو سنة آدم، وذريته من الأنبياء والأولياء، وكأنه كوشف له أن بعض أمته يفعلون ذلك أو مثل ذلك من الانحناء أو مطأطأة الرأس أو الاكتفاء بلفظ السلام فقط.
الکوکب الدری (2/136) میں ہے:
[باب في كراهية إشارة اليد في السلام] أي مكتفيًا بها مقتصرًا عليها، فأما إذا كان التلفظ بلفظ التسليم أيضًا فلا وبذلك يعلم أن التصرف في شيء بالنقص والزيادة يخرجه عن التشبه
العرف الشذی (3/1066) میں ہے:
حكم إشارة اليد في السلام ………. قوله: باب في كراهية إشارة اليد في السلام: قالوا: إن الاكتفاء بإشارة اليد في السلام من صنيع اليهود والنصاري نعم إذا كان الرجل المسلم بعيدا يجوز الإشارة، ولا بد من التكلم باللسان أيضا، ولا يكتفي بإشارة اليد فقط.
امداد الاحکام (1/285) میں ہے:
سوال :من تشبه بقوم فهو منهم کا خلاصۂ مضمون بیان فرمائیں کہ مشابہت کسے کہتے ہیں اور کس عارض کی وجہ سے کبھی مرتفع بھی ہو سکتی ہے یا نہیں ؟
الجواب: تشبہ بالکفار کی چند صورتیں ہیں :
(۱) فطری امور میں مشابہت ، مثلاً کھانا پینا، چلنا پھرنا، سونا لیٹنا ، صفائی رکھنا وغیرہ یہ مشابہت حرام نہیں قال في الدرفان التشبه بهم لا يكره في كل شي بل في المذموم وفيما يقصد به التشبه كما فى البحر قال الشامی تحت قوله لا يكره في كل شئ فانا ناكل ونشرب كما يفعلون.
(۲) عادات میں مشابہت مثلاً جس ہیئت سے وہ کھانا کھاتے ہیں اسی ہیئت سے کھانا یا لباس ان کی وضع پر پہنتا، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر ہماری کوئی خاص وضع پہلے ہی ہو اور کفار نے بھی اس کو اختیار کر لیا ہو، خواہ ہمارا اتباع کر کے یا ویسے ہی اس صورت میں یہ مشابہت اتفاقیہ ہے ، اور اگر ہماری وضع پہلے سے جدا ہو اور اس کو چھوڑ کر ہم کفار کی وضع اختیار کریں، یہ نا جائز ہے ، اگر ان کی مشابہت کا قصد یہی ہے تب تو کراہت تحریمی ہے ، اور اگر مشابہت کا قصد نہیں ہے بلکہ اس لباس و وضع کو کسی اور مصلحت سے اختیار کیا گیا ہے تو اس صورت میں تشبہ کا گناہ نہ ہوگا، مگر چونکہ تشبہ کی صورت ہے ، اس لئے کراہت تنزیہی سے خالی نہیں قال هشام رأیت علی ابی یوسف نعلين مخسوفين بمسامير قلت أترى بهذا الحديد باسا قال لا قلت فسفیان و ثور بن يزيد كرها ذلك لان فيه تشبها بالرهبان فقال ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس النعال التي لها شعر وانها من لباس الرهبان فقد اشار الى ان صورة المشابهة فيما تعلق به صلاح العباد لا يضر فان الارض مما لا يمكن قطع المسافة البعيدة فيها الا بهذا النوع قلت وفعله عليه السلام محمول على بيان الجواز اذا كان بدون القصد.
مگر چونکہ آجکل عوام جواز کے لئے بہانے ڈھونڈتے ہیں، ان کا قصد تشبہ ہی کا ہوتا ہے اس لئے اکثر احتیاط کے لئے عادات میں بھی تشبہ سے منع کیا جاتا ہے ، خواہ تشبہ کا قصدہو یا نہ ہو۔
(۳) ان امور میں تشبہ جو کفار کا مذہبی شعار یا دینی رسم اور قومی رواج ہے ، جیسے زنار وغیرہ پہننا، یا مجوس کی خاص ٹوپی جو ان کے مذہب کا شعار ہے اس میں تشبہ حرام بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے ، عالمگیریہ وغیرہ میں اس کی تصریح ہے ۔
کفایت المفتی (9/378) میں ہے:
جھنڈے کو سلامی مسلم لیگ بھی کرتی ہے اور اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتی ہے، وہ ایک قومی عمل ہے، اس میں اصلاح ہوسکتی ہے، مگر مطلقاً اس کو مشرکانہ فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
فتاویٰ رحیمیہ (10/180) میں ہے:
’’ یہ محض سیاسی چیز ہے اور حکومتوں کا طریقہ ہے، اسلامی حکومتوں میں بھی ہوتا ہے، بچنا اچھا ہے، اگر فتنہ کا ڈر ہو تو بادلِ ناخواستہ کرنے میں مواخذہ نہیں ہوگا‘‘۔
یو ایس کی کتاب US Military Customs And Courtesies(ص:132) میں ہے:
When to Salute
A salute is a public sign of respect and recognition of another’s higher rank. When in uniform, you salute when you meet and recognize an officer entitled to a salute by rank except when inappropriate or impractical. Generally, in any case not covered by specific situations, a salute is the respectful, appropriate way to acknowledge a superior officer.
ترجمہ:کب سيلوٹ کرنا چاہیے؟
سيلوٹ ایک ظاہری نشان ہے احترام اور کسی کے اعلیٰ رینک کو تسلیم کرنے کا۔ جب آپ وردی میں ہوں تو آپ اُس وقت سيلوٹ کرتے ہیں جب آپ کسی ایسے افسر سے ملیں اور اُسے پہچانیں جو رینک کے اعتبار سے سيلوٹ كا مستحق ہو، سوائے اس وقت جب یہ نامناسب یا ناقابلِ عمل ہو۔ عام طور پر، اگر کوئی خاص صورتحال نہ ہو تو سيلوٹ کرنا ایک باعزت اور مناسب طریقہ ہے اپنے سے بڑے افسر کو تسلیم کرنے کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved