• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

سامان پہنچانے کا کرایہ

استفتاء

**الیکٹرک میں الیکٹریشن، الیکٹرک اور ہارڈ ویئر سے متعلق سامان مثلاً پنکھے، بجلی کے بٹن، انرجی سیور LED بلب، تار کوائل شپ (ایک خاص قسم کی مہنگی تار) رائونڈشپ تار (خاص قسم کی تار جو بنڈل کی شکل میں ہوتی ہے اور کسٹمر کی ضرورت کے مطابق اس کو بنڈل سے کاٹ کر دی جاتی ہے) وغیرہ کی فروخت کی جاتی ہے۔

**  اگر کمپنی سے کسٹمر کے مطالبے پر مال منگوائے تو گاہک کومال پہنچانے کی تین صورتیں ہوتی ہیں:

-1            پہلی صورت یہ ہے کہ کسٹمر کہتاہے کہ مال جب  **  میں پہنچ جائے تومجھے بھیج دینا۔ اس صورت میں کرایہ  **  کے ذمے ہوتا ہے اور  **  کسٹمر سے وصول کرتی ہے۔

-2            دوسری صورت یہ ہے کہ کسٹمر کہتا ہے کہ جس دن مال  **  میں پہنچے، مجھے اطلاع دی جائے میں خود آکر وصول کر لوں گا، اس صورت میں کرایہ چارج نہیں کیا جاتا۔

-3            تیسری صورت یہ ہے کہ اگر سامان کمپنی سے براہ راست کلائنٹ تک پہنچتا ہے تو اس صورت میں کمپنی (سیلر) نے پہنچ کی قیمت (سامان+ راستے کا خرچہ) لگائی ہوتی ہے اور بل میں دونوں چیزیں علیحدہ طورپر درج ہوتی ہیں۔

اس صورت میں کرایہ کمپنی کے ذمے ہوتا ہے کیونکہ یہ صورت پہنچ دینے کی ہوتی ہے البتہ اگر کسٹمر زیادہ دور ہو تو اس صورت میں کمپنی پہنچ کا معاملہ نہیں کرتی۔ البتہ ٹرانسپورٹ کا انتظام کر کے سامان گاہک تک بھیج دیتی ہے اور کرایہ  **  سے چارج کرتی ہے اور  **  کسٹمر سے چارج کرتی ہے؟

مذکورہ بالا طریقوں کے مطابق سامان پہنچانے کا کرایہ مقرر کرنا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ مذکورہ صورت میں اگر پہلے سے طے ہو یا معروف ہو کہ  ** ٹرانسپورٹر کو کرایہ اپنے پاس سے دے گی اور بعد میں اس کی وصولی گاہک سے کرے گی تو اس صورت میں گاہک سے کرایہ وصول کرنا جائز ہے اور اگر یہ طے ہو یا معروف ہو کہ مذکورہ صورت میں  **  گاہک سے کرایہ وصول نہیں کرے گی تو اس صورت میں گاہک سے کرایہ وصول کرنا جائز نہ ہو گا اور یہ صورت پہنچ دینے کی سمجھی جائے گی۔

۲۔ یہ صورت جائز ہے۔

۳۔            مذکورہ صورت میں پہنچ کا معاملہ کرنے کی صورت میں کرایہ کمپنی کے ذمے ہی بنتا ہے لہٰذا یہ صورت جائز ہے البتہ پہنچ کا معاملہ نہ کرنے کی صورت میں کرایہ گاہک کے ذمے ہے اور گاہک کا براہ راست معاملہ H.E کی ساتھ ہوتا ہے اور  **  کا معاملہ کمپنی کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے کمپنی کے کرایہ ادا کرنے کی صورت میں کمپنی کا  ** سے مطالبہ کرنا اور  ** کا گاہک سے مطالبہ کرنا جائز ہے۔

(۱)         سنن الامام الترمذي (حديث: ۱۳۵۲):

المسلمون علي شروطهم الا شرطًا حرّم حلالاً أو أحل حَراماً۔

(۲)         شرح المجلة رستم باز: (ص ۱۴۵):

(المادة: ۲۹۱) ما يباع محمولاً علي الحيوان کالحطب والفحم تکون اجرة نقله و ايصاله إلي بيت المشتري علي حسب عرف البلدة وعادتها۔ و علي هذا لو اشتري حطباً فغصبه غاصب حال نقله إلي منزله فعلي البائع إذا کان العرف يقضي عليه أن يسلمه في منزل المشتري والا فعلي المشتري۔

(۳)         شرح المجلة رستم باز: (۱۴۸):

’’المادة (۲۸۷): اذا بيع مال علي أن يسلم في محل کذا، لزم تسليمه في ذالک المحل۔

(۴)         فقه البيوع: (۱/۳۹۲):

الشرط السابع المتعلق بالمبيع: ان يکون البائع قد قبض المبيع قبضا حقيقيا او حکميا و هذا من شرائط الصحة: فبيع مالم يقبضه بعد فاسدٌ شرعاً ولو کان مملوکاله۔

(۵)         ايضاً (۱/۴۱۹) هل يکفي القبض السابق علي المبيع؟:

وکذالک ان کانت يد المشتري يد امانة کيد الوديعة والعارية لايصير قابضا الا ان يکون بحضرته…… و تبين مما ذکرنا ان القبض الجديد في صورة يدالا مانة انما يشترط عند الحنفية فيما اذا کان المبيع غائبا عن مجلس البيع، فان کان حاضرا بيدالمشتري، فان القبض يتحقق فوراً۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved