- فتوی نمبر: 30-12
- تاریخ: 16 فروری 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
*** نے *** سے ایک مکان بمبلغ 40لاکھ روپے میں خریدا اور بطور بیعانہ کچھ رقم تقریبا23 لاکھ روپے ادا کر کے مکان کا قبضہ لے لیا اور بقایا جلد ادا کرنے کا وعدہ کیا، *** نے رقم کسی مشترکہ کاروبار میں لگائی ہوئی تھی جس میں نقصان کی وجہ سے وہاں سے وصولی میں تاخیر ہوئی اور بقایا رقم تقریبا 20 ماہ میں ادا کی گئی،*** نے تمام رقم وصول ہونے پر کہا کہ مکان کے فروخت میں یہ شرط تھی کہ اگر تمام رقم بروقت ادا نہیں کی گئی تو مکان کا کرایہ دینا ہو گا جو کہ 10000روپے پہلے سال کا ہوگا اور اگر رقم دوسرے سال بھی ادا نہ ہوئی تو کرایہ 20000 روپے ہوگا تو اب رقم کی ادائیگی دو سرے سال میں ہوئی تو 360000روپے کرایا کی رقم بن گئی۔
نوٹ:یہ شرط *** کے بقول صرف اس لیے لگائی تھی تاکہ رقم بر وقت مل جائے،اب سوال یہ ہے کہ:
1۔یہ معاہدہ شریعت کی رو سے درست ہے یا نہیں ؟
2۔ بیع میں اس طرح کی شرط طے کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
3۔ آیا یہ کرایہ 360000 روپے *** کے لیےاداکرنے ضروری ہیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ یہ معاہدہ شریعت کی رُو سے درست نہیں۔
2۔ بیع میں اس طرح کی شرط کرنا درست نہیں اگر کرلی تو یہ بیع فاسد ہوگی جسے ختم کرنا ضروری ہوگا اس کے بعد نئے سرے سے فریقین بیع کرنا چاہیں تو کریں نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں ، نئے سرے سے کرنے کی صورت میں سابقہ قیمت پر بیع کرنا ضروری نہیں اس سے کم وبیش بھی کی جاسکتی ہے۔
3۔ ضروری نہیں بلکہ جائز ہی نہیں۔
ہدایہ(3/88)میں ہے:
وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده۔۔۔۔ قال ومن اشترى ثوبا على أن يقطعه البائع ويخيطه قميصا أو قباء فالبيع فاسد لأنه شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين ولأنه يصير صفقة في صفقة على ما مر.
شامی(5/91)میں ہے:
(و) يجب (على كل واحد منهمافسخه قبل القبض) ويكون امتناعا عنه ابن الملك (أو بعده ما دام) المبيع بحاله جوهرة (في يد المشتري إعداما للفساد) ؛ لأنه معصية فيجب رفعها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved