- فتوی نمبر: 33-259
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > کنائی الفاظ سے طلاق کا حکم
استفتاء
میرے شوہر نے دو سال پہلے مجھے طلاق دی تھی جس کے بعد ہم نے صلح کرلی تھی۔ چار دن پہلے انہوں نے دوسری بھی دے دی ہے اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ “میں نے تمہیں فارغ کردیا ہے، جاؤ اپنے گھر” اب وہ صلح چاہتے ہیں۔ کیا تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں یا دو طلاقیں ہوئی ہیں؟ میرے شوہر کہتے ہیں جب “فارغ” کا لفظ بولا تھا تو اس وقت میری طلاق کی نیت نہیں تھی۔
وضاحت مطلوب ہے: (1)شوہر نے جو جملہ استعمال کیا تھا اس کے الفاظ کیا تھے؟ (2) شوہر کا رابطہ نمبر ارسال کریں۔
جواب وضاحت: (1)میں کعبے کی طرف ہاتھ کرکے تمہیں طلاق دیتا ہوں پھر ایک ، دو منٹ بعد کہا کہ “میں نے تمہیں فارغ کردیا ہے، جاؤ اپنے گھر”(2) *****
شوہر سے دارالافتاء کے نمبر کے ذریعے رابطہ کیا گیا تو اس نے موجودہ صورتحال کی تصدیق کی۔[رابطہ کنندہ: صہیب ظفر]
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں دو سال پہلے کی طلاق سمیت دو طلاقیں واقع ہوئی ہیں نہ کہ تین۔ نیز چار دن پہلے والی طلاق کے الفاظ سے ایک بائنہ طلاق واقع ہوئی ہے لہٰذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر کے رہ سکتے ہیں ۔
توجیہ:مذکورہ صورت میں شوہر نے حالیہ واقعہ میں جو طلاق کا جملہ بولا کہ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” یہ جملہ چونکہ طلاق کے لیے صریح ہے اس لیے اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی۔اس کے بعد جب شوہر نے یہ کہا کہ “میں نے تمہیں فارغ کر دیا ہے، جاؤ اپنے گھر” اس سے مزید طلاق واقع نہیں ہوئی بلکہ سابقہ رجعی طلاق بائنہ ہو گئی کیونکہ رجعی طلاق کے بعد کنائی الفاظ سے اگر مزید طلاق دینے کی نیت نہ ہو تو سابقہ طلاق کے وصف میں اضافہ ہوتا ہے نہ کہ عدد میں اور چونکہ شوہر ایک طلاق اس واقعہ سے پہلے بھی دے چکا ہے اس لیے دو طلاقیں ہو گئیں۔
قرآن کریم (سورۃ البقرۃ، آیت نمبر:229) میں ہے:
الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان
خلاصۃ الفتاویٰ (2/82) میں ہے:
فلو قال لإمرأته أنت طالق ثم قال للناس: “زن من بر من حرام است” وعنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعى بائنا وان عنى به الابتداء فهى طالق آخر بائن.
البحر الرائق (3/310) میں ہے:
قوله: (أنت طالق بائن أو ألبتة أو أفحش الطلاق أو طلاق الشيطان أو البدعة أو كالجبل أو أشد الطلاق أو كألف أو ملء البيت أو تطليقة شديدة أو طويلة أو عريضة فهي واحدة بائنة إن لم ينو ثلاثا) بيان للطلاق البائن بعد بيان الرجعي
البحر الرائق (533/3) میں ہے:
وإذا لحق الصريح البائن كان بائنا لأن البينونة السابقة عليه تمنع الرجعة كما في الخلاصة
فتاوی شامی(42/5) میں ہے:
وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
”فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد“
ہدایہ(2/409)میں ہے:
وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها ” لأن حل المحلية باق.
فقہ الاسلامی (ص:129) میں ہے:
تنبیہ: کیونکہ ہمارے عرف میں شوہر کی مذکورہ بالا عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ شوہر اپنے ان الفاظ سے کہ”……….. میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا یا تم آزاد ہو یا تم جہاں چاہے نکاح کر لو” ……..اسی پہلی طلاق کو بیان کر رہا ہے کہ وہ ایسی ہے۔بلکہ بہت سے لوگوں کو الفاظ کنایہ سے طلاق ہونے کا علم تک نہیں ہوتا۔ اس لیے پہلی صورت متعین ہے کہ ایک طلاق بائن واقع ہوگی الا یہ کہ شوہر نے دوسری طلاق کی نیت کی ہو کہ اس وقت دو طلاق بائن واقع ہوں گی۔
امداد المفتین (ص521) میں ہے:
’’سوال: زید نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل تحریر بذریعہ رجسٹری ڈاک بھیج دی ’’میں نے اور میرے والدین نے تمہیں گھر آباد کرنے کی جدوجہد کی، لیکن سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں،اس واسطے تنگ آکر تم کو بحکم شریعت طلاق دے دی ہے، اور میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے، تم اس خط کو سن کر اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا، میں یہ طلاقنامہ تم کو تمہارے والد کی وساطت سے بھیجتا ہوں‘‘ اس سے طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟
الجواب:صورت مذکور میں شوہر کے پہلے الفاظ طلاق صریح کے ہیں، اور دوسرے کنایہ کے، صورت مذکورہ میں کنایہ کے دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں، اول ’’میرا تم سے کچھ تعلق نہیں‘‘ دوسرے ’’تم اس خط کو سن کر اپنے کو مجھ سے علیحدہ سمجھنا‘‘ یہ دونوں لفظ کنایات بوائن میں سے ہیں……………الفاظ کنایہ میں اس جگہ باعتبارمراد و نیت متکلم کے عقلا تین احتمال ہیں، تینوں احتمالوں پر حکم شرعی جداگانہ ہے، اول یہ کہ الفاظ کنایہ سے اس نے پہلی طلاق ہی مراد لی ہو، یعنی اس طلاقِ اول کی توضیح و تفسیر اور بیان حکم اس سے مقصود ہو، دوسرے یہ کہ ان الفاظ سے مستقل طلاق کی نیت ہو، تیسرے یہ کہ ان الفاظ سے کچھ کسی چیز کی نیت نہ ہو پہلی صورت میں ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہوگی۔
لما فى الخلاصة وفى الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائنا و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. (خلاصة الفتاوی صفحه 82 جلد 2) و فى الكنز أنت طالق بائن إلى قوله فهي واحدة بائنة و فى فتح القدير قيد بكون البائن صفة بلا عطف لأنه لو قال أنت طالق و بائن أو قال أنت طالق ثم بائن و قال لم أنو بقولى بائن شيئا فهى رجعية و لو ذكر بحرف الفاء و الباقى بحاله فهى بائنة كذا فى الذخيرة ( بحر جلد3، صفحه 500)
عبارات مذکورہ سے معلوم ہوا کہ جب عبارت میں کوئی قرینہ ایسا موجود ہو جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ الفاظ کنایہ طلاق سابق کا بیان یا تفسیر و تفریع ہیں تو ایک طلاق بائنہ بلا احتیاج الی النیۃ واقع ہو جائے گی جیسا کہ بائن کے حکم سے ظاہر ہوا بحوالہ فتح القدیر، اور اسی طرح جب کہ متکلم ان لفظوں سے طلاق اول کے بیان کی نیت کرے طلاق بائن واقع ہو جائے گی، اگرچہ لفظوں میں کوئی حرف تفریع وغیرہ موجود نہ ہو كما ظهر من عبارة الخلاصة و قال فى البحر كل كناية قرنت بطالق يجرى فيها ذلك (بحر صفحه 501 جلد 3) …………… ہمارے عرف میں اس عبارت کا صاف مطلب یہی سمجھا جاتا ہے کہ متکلم اپنے لفظوں سے کہ (میرا تم سے کوئی تعلق نہیں) اسی طلاق کو بیان کر رہا ہے جس کو اس سے پہلے صراحۃ ذکر کیا گیا ہے ………… الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved