• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح طلاق کے بعد کنایہ الفاظ کا استعمال

استفتاء

میرے شوہر جس کی میں دوسری بیوی ہوں، جس کا علم ان کی پہلی بیوی کو نہیں  تھا، انہوں نے یہ بتایا تھا کہ میری پہلی بیوی بیمار ہے جس کی وجہ سے وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہیں، جب ان کی پہلی بیوی کو پتا چلا کہ انہوں نے دوسری شادی کر لی ہے تو اس نے ان پر زور ڈالا کہ تم انہیں کو چھوڑ دو، انہیں نے مصلحتاً ایک تحریری طلاق 17 مئی کو دی، اس کو کہا کہ میں نے دوسری والی کو چھوڑ دیا ہے اور مجھے کہ میں ایک ماہ کے اندر تم سے رجوع کر لوں گا لیکن اس کا علم پہلی والی بیوی کو نہیں ہونا چاہیے، جب تک میرے کاروباری حالت ٹھیک نہیں ہوتی، پھر 16 جون کو انہوں نے رجوع کیا، دو ماہ کے دوران پھر اس کو پتا چلا تو انہوں نے دوسری طلاق 15 اگشت کو فون پر کہی (الفاظ یہ تھے: میں تمہیں طلاق دیتا ہوں)، اس میں بھی پہلی والی صورت ہے کہ وہ رجوع کرنا چاہتے ہیں، میں لاہور میں رہتی ہوں اور میرے شوہر ان کے پہلے بیوی بچے نوشہرہ میں رہائش پذیر ہیں، جب انہوں نے دوسری طلاق دی تو ان کی پہلی بیوی نے ان کو تنگ کرنا شروع کر دیا کہ تم نے اس کو اب بھی فارغ نہیں کیا، تم نے اس کو کتنی طلاقیں دی ہیں، انہوں نے اسے ٹالنے کے لیے کہا کہ دو سو دے چکا ہوں اور کیا چاہتی ہو، یہ بات نہ میرے سامنے کہی نہ میں جہاں موجود تھی اور یہ بات صرف اس کو ٹالنے کے لیے کہی۔ اب مجھے بتائیں کہ مجھے کتنی طلاقیں ہوئیں؟ اور ہمیں رجوع کا حق ہے؟ میرے شوہر رجوع کرنا چاہتے ہیں، میری عدت ختم ہونے میں تھوڑے دن باقی ہیں برائے مہربانی مجھے فوراً جواب دیں۔

نوٹ: پہلی یعنی 17 مئی والی طلاق اور دوسری فون والی طلاق کے درمیان تین ماہواریاں پوری نہیں گذری تھیں، دو گذری تھیں، البتہ اب کے واقعہ اور پہلی طلاق کے درمیان تین ماہواریاں گذر چکی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوئی ہیں، پہلا نکاح ختم ہو گیا ہے، دوبارہ اکٹھے رہنے کے لیے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

توجیہ: تحریری طلاق کے الفاظ یہ ہیں:

"میں اپنی بیوی مسماۃ صائمہ کو طلاق دیتا ہوں، آج سے مسماۃ صائمہ کا نفس مجھ پر حرام ہے، صائمہ آج سے مجھ سے آزاد ہے اور اس سے آزاد ہوں الخ”

ان میں سے صریح الفاظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی، بعد کے الفاظ نے عدد میں اضافے کی بجائے وصف میں اضافہ کر کے اسے بائنہ بنا دیا۔

لما في الخلاصة: لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من بر من حرام است و عنی به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائناً و إن عنی به الإبتداء فهي طالق آخر بائن. (إمداد المفتيين2/ 86)

فون پر دی گئی دوسری طلاق چونکہ صریح تھی اور عدت طلاق کے اندر دی گئی تھی اس لیے الصریح یلحق الصریح کے تحت پہلی کو لاحق ہو گئی۔ تیسرا واقعہ چونکہ عدت طلاق گذرنے کے بعد پیش آیا ہے اس لیے وہ الفاظ بے اثر رہے اور مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوئی۔

إنما يلحق الطلاق لمعتدة الطلاق أما المعتدة للوطء فلا يلحقها. (رد المحتار: 4/ 538)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved