• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ساری زندگی دو سو نفل پڑھنے کی نذر مانی پھر پورا کرنے سے عاجز ہو گیا تو کیا حکم ہے؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیوی حاملہ تھی اور بچے کی پیدائش کا وقت تھا، میری اہلیہ کی حالت کافی خراب تھی ،  ڈاکٹر نے مجھے بلا یااورکہا کہ کافی خون چاہیے،  تو میں نے اپنی اہلیہ کو دیکھ کر کہا کہ ’’اگر میری بیوی اور بچہ دونوں بچ گئے تو میں روز دو سو رکعت نفل ادا کروں گا‘‘۔ مفتی صاحب اب اتنی طاقت نہیں کہ روزانہ دو سو رکعت ادا کیا کروں، کچھ دن  تو ادا کیے مگر اب ادا نہیں کر سکتا۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ  کیا کروں؟ کوئی  کفارہ وغیرہ ہو تو بتا دیں، دو سو رکعت ادا کرنا مشکل ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:

اس موقع پر آپ نے جو الفاظ بولے تھے وہ بتائیں ۔ کیا ساری زندگی نوافل پڑھنے کا کہا تھا؟

جواب وضاحت:

میں نے ساری زندگی پڑھنے کا ہی کہا تھا، اور زبان سے یہ الفاظ کہے تھے۔ لیکن اب میں پڑھ نہیں سکتا، کام پر بھی جانا ہوتا ہے اور تھکاوٹ بھی ہو جاتی ہے، گھٹنے درد کرنے لگ جاتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کو اپنی نذر حتی الامکان پوری کرنی چاہیے لیکن اگر آپ روزانہ مکمل دو سو رکعت نفل نہیں پڑھ سکتے تو جتنے پڑھ سکتے ہیں اتنے پڑھیں اور باقی نمازوں کا حساب رکھتے رہیں۔ چونکہ زندگی میں نمازوں کا فدیہ نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے فوت ہونے کے وقت جتنے نذر کے نفل رہتے ہوں ان کےبارے میں ہردونفل کےبدلے پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت کےبقدر) فدیہ کی وصیت کردیں ۔

فتاویٰ دار العلوم دیوبند (12/77) میں ہے:

’’سوال: زید نے نذر کی تھی کہ اگر میرا کام ہو گیا تو ہر نماز کے بعد دو رکعت نفل پڑھوں گا، بفضلہ اس کا کام پورا ہو گیا، پس زید اپنی نذر کے موافق کئی دن تک پانچوں نذر کا دوگانہ ادا کرتا رہا، پھر کبھی قضاء ہونے لگا، رفتہ رفتہ بالکل چھوٹ ہی گیا، اب حساب بھی یاد نہیں رہا کہ کتنے دو گانہ قضاء ہوئے اور کتنے پڑھے ، گذری ہوئی نذر کی نمازوں کے متعلق کیا کیا جاوے جن کا حساب بھی یاد نہیں رہا اور آئندہ بھی اس نذر کے دو گانہ کو ادا کرنا لازم ہے یا اس سے بچنے کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟

الجواب: اس قسم کی نذر لازم ہو جاتی ہے اور پورا کرنا اس کا لازم ہے، جو دوگانہ وقت پر ادا نہیں ہوا اس کی قضاء لازم ہے۔ اور زندگی میں فدیہ دینا ان نمازوں کا درست نہیں ہے، فدیہ کی وصیت بوقت موت لازم ہوتی ہے کہ اس قدر دو گانہ میرے ذمہ رہے ان کا فدیہ میرے مال سے دیا جائے، ہر ایک دو گانہ کا فدیہ مثل صدقۃ الفطر کے بوزن اسی (80) پونے دو سیر گندم تقریباً ہوتے ہیں، ہر ایک دو گانہ کے عوض وارث اس قدر گندم یا اس کی قیمت ادا کریں۔ یہ تو بعد الموت کا حکم ہے، زندگی میں سوائے ادا کرنے یعنی قضاء کرنے ان دو گانوں کے اور کوئی صورت خلاصی کی نہیں ہے۔ پس اب یہ کیا جاوے کہ آئندہ ہر نماز کے ساتھ دو گانہ منذورہ ادا کرے مگر جن نمازوں کے بعد قسم کی نماز درست نہیں ہے جیسے فجر اور عصر اس میں یہ کرے کہ عصر سے پہلے اور فجر کے بعد کا دو گانہ آفتاب نکلنے کے بعد یا صبح صادق سے پہلے پڑھ لیا کرے، اور باقی نمازوں کے بعد اس دو گانہ ادا کیا کرے۔ اور گذشتہ فوت شدہ دو گانوں کا تخمینہ کر لے کہ کب سے نہیں پڑھی، ہر ایک شب روز کے پانچ دو گانہ واجب ہیں ان کو جس طرح سہل ہو قضا کرتا رہے، اور پھر اس کے اندازہ میں جس قدر رہ جاویں ان کے لیے وصیت کر دے کہ اس قدر فدیہ دوگانوں کا میرے بعد ادا کیا جائے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved