• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

صریح کے بعد کنایہ کے الفاظ کا استعمال

استفتاء

ناچیز نے اپنی بیوی سے ایک ہی مجلس میں کہا ” تیری میری طلاق، طلاق، تو میرے اوپر حرام اور میں تیرے اوپر حرام” یہ تینوں جملے مذکورہ ترتیب سے کہے۔ عرض ہے کہ شرعی اعتبار سے کون سی طلاق ہوئی؟ رجوع کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دو بائنہ طلاقیں واقع ہوئی ہیں۔ اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ کم از دو گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کر کے رہ سکتے ہیں، البتہ آئندہ کے لیے خاوند کے پاس صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

دو بائنہ طلاقیں واقع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خاوند نے صریح طلاق کے بعد جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ اصل کے اعتبار سے کنایہ ہیں۔ جن کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر خاوند ان الفاظ سے علیحدہ طلاق کی نیت کرے تو نئی طلاق پڑتی ہے۔ اور اگر نئی طلاق کی نیت نہ کرے بلکہ پہلی کی نیت کرے یا کچھ نیت نہ ہو تو ان سے نئی طلاق نہیں پڑتی، صرف پہلی رجعی طلاق بائنہ ہوجاتی ہے۔ ہمارے عرف میں ایسے الفاظ سے عام طور سے نئی طلاق کی نیت نہیں ہوتی۔ اس لیے مذکورہ صورت میں حرام کے لفظ سے نئی طلاق نہیں ہوئی البتہ پہلی دو طلاقیں بائنہ ہوگئی ہیں۔

و في الفتاوى لو قال لامرأته أنت طالق ثم قال للناس زن من حرام است و عنى به الأول أو لا نية له فقد جعل الرجعي بائناً و إن عنى به الابتداء فهي طالق آخر بائن. ( خلاصہ: 2/ 82) فقط

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved