- فتوی نمبر: 21-53
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی دکان کرائے پر دی 18 ہزار روپے پراور کافی دیر سے یہ اجارہ چل رہا ہےاب مالک دکان کو پیسوں کی ضرورت پڑی اس نے کرایہ دار سے کہا کہ مجھے گیارہ لاکھ روپے دے دو اور کرایہ ہرماہ دس ہزار دے دینا اور جب دکان چھوڑو گے تو پورے پیسے واپس لے لینا ،کرایہ دار نہیں مانا، کسی ثالث نے ان کے مابین پانچ سو کرایہ کا فیصلہ کر دیا ،وہ دونوں راضی بھی ہو گئے ۔کیایہ صورت جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز نہیں ہے تو جائز متبادل صورت بتا دیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت سودکی ہے ،اس لئے جائز نہیں ،کیونکہ جو گیارہ لاکھ مالک دکان کو دیے جائیں گےوہ شریعت کی نظر میں قرض ہیں اور قرض کی وجہ سے مقروض سے کوئی فائدہ اٹھانا سود ہے۔
جائز صورت یہ ہے کہ کرایہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادا کیا جائے یعنی جتنا کرایہ قرض لینے سے پہلے اس دکان کا تھا اتنا ہی ادا کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved