- فتوی نمبر: 25-229
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
ہماری ونگوں کے اندر جو مسجدیں بنائی جاتی ہیں آیا کہ مسجد کے حکم میں ہیں یا مصلے کے حکم میں ہیں؟جب کہ جو جگہ ہوتی ہے وہ کسی بھی شخص کی نہیں ہوتی حکومت کے کھاتے کی ہوتی ہے۔ حکومت کی طرف سے افسران بالا کو ایسی جگہ پر مسجد بنانے کی اجازت بھی ہوتی ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:کیا یہ مسجدیں مستقل ہوتی ہیں یا عارضی ہوتی ہیں؟
جواب وضاحت:یہ مسجدیں مستقل ہی ہوتی ہیں البتہ وہ زمین سرکاری کھاتے کی ہوتی ہے۔حکومت کی طرف سے افسران بالا کو ان زمینوں پر سب کچھ بنانے کی اجازت ہوتی ہے اور افسران بالا نے ہی اس جگہ کو نماز ومسجد کے لئے مختص کیا ہوتا ہے،نیز ایک مولوی صاحب نے کہا تھا کہ یہ مساجد مصلے ہیں شرعی مسجد نہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ مساجد شرعی مسجد کے حکم میں ہیں۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں جو مساجد ونگوں کے اندر بنائی گئی ہیں، چونکہ وہ حکومت کی مملوکہ زمین پر بنی ہوتی ہیں اور حکومت کی اجازت سے فوج کے افسران نے خود اس جگہ کو نماز ومسجد کے لئے مختص کیا ہوتا ہے،لہذا یہ مساجد شرعی مسجد کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
شامی(546/6)میں ہے:(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل———- (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعةوفي الشامية: قوله (بجماعة) لأنه لابد من التسليم عندهما——واشتراط الجماعة لأنها المقصود من المسجد ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة إلا لم يصر مسجدا وإذا اتحد الإمام والمؤذن وصلى فيه صار مسجدا بالإتفاقتبیین الحقائق (239/2)میں ہے:من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرز عن ملكه بطريقة ويأذن بالصلوة فيه وإذا صلى فيه واحد زال ملكهردالمحتار(548/6)میں ہے:وإذا قد عرفت أن الصلاة فيه اقيمت مقام التسليم علمت أنه بالتسليم إلى المتولى يكون مسجدا دونها أي دون الصلاة وهذا هو الاصح كما في الزيلعي وغيره وفي الفتح وهو الأوجه لأن التسليم إليه يحصل تمام التسليم إليه تعالىبدائع الصنائع(328/5)میں ہے:فمنها أن يخرجها الواقف من يده ويجعل له قيما ويسلمه إليه عند أبي حنيفة ومحمد——- ثم التسليم في الواقف عندهما أن يجعل له قيما ويسلمه إليه وفي المسجد أن يصلى فيه جماعة بأذان وإقامة بإذنهعالمگیری(455/2)میں ہے:التسليم في المسجد أن تصلى فيه الجماعة بإذنه——-يشترط مع ذالك أن تكون الصلاة بإذان وإقامة جهرا لا سرا حتى لو صلى جماعة بغير اذان واقامة سرا لا جهرا لا يصير مسجدا عندهما كذا في المحيط والكفاية—— وإذا سلم المسجد إلى متول يقوم الى مصالحه يجوز وإن لم يصل فيهتاتارخانیہ(839/5)میں ہے:وبالصلاة بجماعة يقع القبض والتسليم بلاخلاف، حتى أنه اذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه يصلى جماعة، فإنه يصير مسجدا، ويشترط مع ذالك أن يكون الصلاة بإذان وإقامة جهرا لا سراالبحر الرائق (394/5)میں ہے:“أشار بإطلاق قوله: و يأذن للناس في الصلاة أنه لايشترط أن يقول: أذنت فيه بالصلاة جماعة أبداً، بل الإطلاق كاف … و قد رأينا ببخارى و غيرها في دور سكك في أزقة غير نافذة من غير شك الأئمة و العوام في كونها مساجد … بني في فنائه في الرستاق دكاناً لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت فله حكم المسجدمنحۃالخالق علی البحر الرائق (415/5)میں ہے:ففي الذخيرة ما نصه: وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى أنه اذا بنى مسجدا واذن للناس بالصلاة فيه جماعة، فانه يصير مسجداشامی(593/6)میں ہے:“و إن بني للمسلمين كمسجد و نحوه… لاينقضفتاوی محمودیہ (386/14)میں ہے:سوال:ایک عرصہ دراز سے ایک مقام لب سڑک سرکاری ایک پختہ چبوترہ مسجد ہے اور وہ مسجد بھی مشہور ہے،مؤذن امام مقرر ہیں،اذان وجماعت باضابطہ ہوتی ہے۔ایک عرصہ ہوا کہ ایک حاکم وقت نے مجمع عام مسلمانان وہنود میں زبانی اس کے مسجد ہونے کو تسلیم کیا اور اس کے مسجد ہونے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد ہوگی یا نہیں اور اس کو مسجد قرار دینا صحیح ہے یا نہیں؟جواب:اس چبوترہ کا مسجد مشہور ہونا،امام مؤذن مقرر ہونا، اذان وجماعت کا وہاں باضابطہ ہونا، نیز حاکم وقت کا مجمع عام مخالف وموافق میں اس کے مسجد ہونے کو تسلیم کرنا اور اس کا اعالان کرنا یہ امور ایسے ہیں کہ اس کے مسجد ہونے کے لئے شاہد عدل اور بہت کافی ہیں،اگر وقف نامہ موجود نہ ہو، یا وقف کا علم نہ ہو تب بھی اس کے مسجد ہونے میں خلل نہیں آتا،کیونکہ امور مذکورہ کا مسجد کے ساتھ مختص ہونا کسی پر مخفی نہیں۔بے شمار مسجدیں ملیں گی کہ نہ ان کا وقف نامہ موجود ہے نہ واقف کا حال معلوم ہے کبھی ایک شخص یا چند اشخاص نے مل کر کچھ حصہ زمین کو کبھی پختہ چبوترہ بنا کر اور کبھی(عدم وسعت کی وجہ سے)کچا ہی رکھ کر نماز وغیرہ عبادات کے ساتھ خاص کردیا اور عام طور پر مسلمانوں کو اس میں نماز کی اجازت دے دی ہے اور صورت مسئولہ میں تو امام ومؤذن بھی مقرر ہیں،اذان وجماعت بھی باقاعدہ ہوتی ہے———–لہذا اس کے مسجد شرعی ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور اس کو غیر مسجد قرار دینا صحیح نہیں۔التسليم في المسجد أن تصلى فيه الجماعة بإذنه——-يشترط مع ذالك أن تكون الصلاة بإذان وإقامة جهرا لا سرا حتى لو صلى جماعة بغير اذان واقامة سرا لا جهرا لا يصير مسجدا عندهما كذا في المحيط والكفاية—— وإذا سلم المسجد إلى متول يقوم الى مصالحه يجوز وإن لم يصل فيه۔ (عالمگيري 1/130)فتاوی محمودیہ(396/14)میں ہے:سوال: ایک آدمی نے زمین وقف نہیں کی اور جس میں ستر اسی برس ہوئے ہیں مسجد بن چکی ہے تو اس مسجد میں نماز ہوگی یا نہیں؟جواب:اگر مالک زمین نے مسجد بنا کر اپنا قبضہ اٹھا لیا اور ہر ایک کو اجازت دیدی اور اذان و نماز شروع ہوگئی، تو اتنی با ت سے وہ مسجد بن گئی، وہاں نماز وجماعت سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved