• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سرکاری ہسپتالوں میں سرکاری ٹائم ٹیبل کے بجائے ایم ایس یا وارڈ انجارج کی اپنی ترتیب اور تنخواہ کا حکم

استفتاء

میں ایک ڈاکٹر ہوں اور سرکاری ملازم ہوں۔ سرکاری طور پر عمومی ڈیوٹی ٹائم صبح 8 تا 2 ہے، ہسپتال کا نمائندہ ایم ایس یعنی میڈیکل سپریڈنٹ ہوتا ہے، جس نے ہسپتال چلانا ہوتا ہے۔ لیکن ہسپتالوں کی اندرونی ترتیب مختلف ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر شعبہ کو عملہ کی ایک متعین مقدار دے دی جاتی ہے اور شعبہ کے سربراہ یعنی پروفیسر سے کہا جاتا ہے کہ اس عملہ سے آپ نے اپنا پورا شعبہ چلانا ہے۔ کیسے چلانا ہے؟ یہ پروفیسر کا درد سر ہے، ایم ایس کو صرف یہ غرض ہوتی ہے کسی جگہ سے شکایت نہ آئے اور کام ٹھیک چلتا رہے۔ اس میں ہر شعبہ کے تحت عموماً مندرجہ ذیل ڈیوٹیاں ہوتی ہیں:

وارڈ (اندرونی مریضاں)، او پی ڈی (بیرونی مریضاں)، ایمرجنسی (شعبہ حادثات)، اپریشن تھیٹر وغیرہ وغیرہ۔

ایک پروفیسر کے پاس متعلقہ عملہ کے ساتھ ساتھ اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹر الگ سے آتے ہیں۔ ان سے بھی وہی کام لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ہر ماہ مختلف جگہوں پر ڈیوٹی لگتی ہے مثلاً کبھی ایمرجنسی، کبھی او پی ڈی، کبھی وارڈ، کبھی آپریشن تھیٹر وغیرہ۔ اگرچہ عمومی ڈیوٹی صبح 8 تا 2 (6 گھنٹے) ہے لیکن ایمرجنسی میں 12 یا 18 یا 24 یا 36 گھنٹے کی ڈیوٹی لگتی ہے، آپریشن تھیٹر میں ڈیوٹی اگرچہ 8 تا 2 ہے لیکن 3، 4 بھی بج جاتے ہیں ۔ اب جس نے 18 یا 24 گھنٹے ایمرجنسی کی سخت ڈیوٹی دی ہوتی ہے، اسے اگلے دن آف دیا جاتا ہے یعنی چھٹی دی جاتی ہے۔ یہ سب شعبہ کے سربراہ کی صوابدید ہوتی ہے اور ایم ایس کو اس پر کوئی اعتراض یا سرو کار نہیں ہوتا۔ اسی طرح سرجری وارڈ میں ایک ایک ہفتہ وارڈ میں بھی رہنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شعبہ کی ایمرجنسی ہو تو دوسرے کی آپریشن تھیٹر کی ڈیوٹی ہے۔

یہ سب تفصیل اس لیے بتا دی کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ نوکری کا سرکاری وقت 8 تا 2 ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں ہر شعبہ اپنے حساب سے ڈیوٹیاں لگاتا ہے۔

آمدم بر سر مطلب:

میری ڈیوٹی جس وارڈ میں ہے اس کی ترتیب یہ ہے کہ

1۔ کچھ ڈاکٹروں کی ڈیوٹی وارڈ میں داخل مریضوں پر ہوتی ہے 9 بجے وارڈ راؤنڈ کے بعد چائے پی کر انہوں نے 11 تا 1 او پی ڈی میں اسپشلسٹ کے ساتھ بیٹھنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ اسپشلسٹ سمیت 1 بجے یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ بجنے پر چلے جاتے ہیں کیونکہ وارڈ انچارج کی طرف سے ڈیوٹی ہی اتنی ہے۔ البتہ بعض اوقات مریض زیادہ ہونے کی وجہ سے 2 بجے یا اس کے بعد بھی رکنا پڑتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر پہلے فارغ ہو کر ڈیڑھ بجنے پر چلے جائیں تو باقی وقت ڈیڑھ تا 2 بجے کی تنخواہ حلال ہو گی یا نہیں؟ کیونکہ وہ تو اپنی ترتیب پر کام کر رہے ہیں۔

2۔ کچھ ڈاکٹروں کی ڈیوٹی او پی ڈی میں ہوتی ہے، یہ صبح 8 تا 2 او پی ڈی میں ہوتے ہیں لیکن او پی ڈی کی پرچی سرکاری طور پر ڈیڑھ بجے بند ہو جاتی ہے، لہذا ڈیڑھ بجے کے بعد ڈاکٹر چلے جاتے ہیں۔ البتہ بعض اوقات مریض زیادہ ہونے کی وجہ سے 2 یا زیادہ بھی  رکنا پڑتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر پہلے فارغ ہو کر ڈیڑھ بجے پر چلے جائیں تو باقی وقت ڈیڑھ تا 2 بجے کی تنخواہ حلال ہو گی یا نہیں؟ کیونکہ وہ تو اپنی ترتیب پر کام کر رہے ہیں۔

3۔ او پی ڈی یوں ہوتی ہے کہ ہمارے شعبہ میں ہفتہ میں چار دن او پی ڈی ہوتا ہے، باقی دو دن ہم فارغ ہوتے ہیں۔ اس میں ترتیب یہ ہوتی ہے کہ وارڈ  راؤنڈ پر آنا لازم ہوتا ہے۔ لہذا راؤنڈ کے بعد 10 یا 11 بجے او پی ڈی والے فارغ ہو جاتے ہیں اور اپنے گھر بھی چلے جاتے ہیں کیونکہ وارڈ کی ترتیب میں ان کی کوئی ڈیوٹی نہیں ہوتی اور انچارج کی طرف سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔

کیا ایسے لوگوں کی 11 بجے کے بعد کی تنخواہ حلال ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ تو اپنی ترتیب پر کام کر رہے ہیں۔

4۔ باقاعدہ سرکاری ملازم ڈاکٹروں کے علاوہ شعبہ میں ٹریننگ والے سینیئر ڈاکٹر (پی جی آر) بھی ہوتے ہیں۔ ڈیوٹی کے لیے ان دنوں کو ایک آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور  برابر سمجھا جاتا ہے لہذا ڈیوٹی لگتے وقت کل تعداد کے حساب سے ترتیب بنائی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر ترتیب کے مطابق ڈیوٹی دے رہا ہوتا ہے تو کسی کام کی وجہ سے اسے گھنٹہ پہلے جانا پڑتا ہے۔ وہ اپنی جگہ اور ڈاکٹر کو بٹھا جاتا ہے، دوسرا ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو ترتیب میں فارغ ہوتا ہے یا ایسی جگہ موجود ہوتا ہے جہاں ضرورت سے زیادہ ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔ وارڈ انچارج کو بھی صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اپنی جگہ کسی کو بٹھا کر جائیں تاکہ کام میں خلل نہ آئے اور ترتیب خراب نہ ہو۔

چنانچہ اس انداز سے جو ڈاکٹر اپنی جگہ کسی دوسرے ڈاکٹر کو بٹھا کر دو گھنٹے کے لیے جاتا ہے تو ان دو گھنٹوں کی تنخواہ حلال ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ اپنی جگہ کسی کو بٹھا کر اور اپنے افسر کی اجازت سے جاتا ہے؟

5۔  ایمرجنسی میں 24 گھنٹے ڈیوٹی کے بعد وارڈ انچارج کی طرف سے ایک چھٹی دے دی جاتی ہے (حالانکہ سرکاری طور پر چھٹی نہیں ہوتی، لیکن سرکاری ڈیوٹی بھی 6 گھنٹے ہے) یہ چھٹی وارڈ انچارج کی طرف سے ہوتی ہے، ایم ایس کی طرف سے نہیں، بعض اوقات ایم ایس کو معلوم نہیں ہوتا لیکن اگر معلوم ہو جائے تو اعتراض بھی نہیں ہوتا تو اس چھٹی والے دن کی تنخواہ کیا حلال نہیں؟

6۔ جن ڈاکٹروں کا امتحان قریب ہو ان کو وارڈ انچارج اپنی مرضی سے کچھ دن چھٹی دے دیتا ہے اور باقی ڈاکٹروں پر ان کی ڈیوٹی بھی ڈال دی جاتی ہے۔ یہی وارڈ کی ترتیب ہے، بعد میں جب اضافی ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹروں کا امتحان آتا ہے تو انہیں بھی اسی طرح کچھ عرصہ کے لیے کام سے چھٹی دے دی جاتی ہے۔ تو جن ڈاکٹروں کو امتحان کی وجہ سے چھٹی دی جاتی ہے، ان کی اتنے دنوں کی تنخواہ حلال ہے یا نہیں؟

7۔ وارڈ میں چھوٹے موٹے آپریشن یا لیزریا اور کاموں کے لیے ایک ماہ کی ڈیوٹی میں لکھا ہوا ہے کہ ان کاموں کا وقت 11 تا 1 ہے۔ اس سے پہلے کوئی مریض اس کام کے لیے آئے تو اسے بٹھا دیا جاتا ہے کہ 11 بجے شروع ہو گا۔ اس سے پہلے 9 بجے راؤنڈ ہوتا ہے، پھر چائے کا وقفہ ہوتا ہے، پھر کام شروع ہوتا ہے۔ جن ڈاکٹروں کی ڈیوٹی ان چھوٹے موٹے آپریشنوں، لیزر وغیرہ پر ہوتی ہے وہ آرام سے 45: 8 تک آتا ہے پھر 11 سے 1 (وارڈ کی ترتیب کے مطابق) یہ کام کرتا ہے۔ بعض اوقات مریض زیادہ ہوں تو دو بج جاتے ہیں لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وقت کے مطابق 1 یا 15: 1 تک کام ختم ہو جاتا ہے۔ جب کام ختم ہو جائے تو ڈاکٹر اپنے گھر چلا جاتا ہے، اور اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی کیونکہ وارڈ کی ترتیب یہی ہے، سرکاری طور پر اس کام کا وقت 11 تا 1 لکھا ہے۔ تو یہ ڈاکٹر جو 9 بجے آیا اور کام ختم کر کے 1 یا 15: 1  چلا گیا تو ان کی تنخواہ حلال ہے یا نہیں کیونکہ وہ تو اپنی ترتیب پر کام کر رہا ہے۔

اس میں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر گورنمنٹ کی طرف سے وقت 8 تا 2 ہے، تو جب ڈاکٹر کو اضافی کام کرنا پڑتا ہے اور وہ 24 گھنٹے ایمرجنسی میں کام کرتا ہے تو اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ اس کے ذمہ کام ہی یہ لگایا گیا لہذا اگر 8 تا 2 کام کر کے چلا جائے تو گورنمنٹ  بھی پکڑے گی اور فتویٰ بھی یہ آئے گا کہ تنخواہ حلال نہیں کیونکہ اس نے 24 گھنٹے پورا کام نہیں کیا۔ ایسے موقع پر وقت نہیں بلکہ متعلقہ شعبہ کی ترتیب کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر ترتیب کے مطابق 8 تا 2 یا 16 یا 24 یا 28 گھنٹے کام کرنا تھا تو اتنا ہی کر کے تنخواہ حلال ہو گی۔ جس طرح کام کے دوران مشکلات اور لمبی ڈیوٹی آتی ہے، اسی طرح آسانی اور کم ڈیوٹی بھی آتی ہے کیونکہ کام شعبہ کی ترتیب سے ہوتا ہے۔ اگر ایک ڈاکٹر کو ایک ماہ سخت ڈیوٹی دی تو اگلے ماہ ترتیب کے مطابق نرم ڈیوٹی دی جاتی ہے، اسی طرح سے ان کی ٹریننگ کی جاتی ہے اور اسپیشلسٹ بنایا جاتا ہے۔ اضافی ڈیوٹی کی الگ کوئی تنخواہ نہیں دی جاتی۔ اگر گورنمنٹ کے وقت 8 تا 2 یا زیادہ سے زیادہ 8 تا 5 کی ڈیوٹی ہو (جیسا کہ دفاتر میں ہوتا ہے) تو پھر شام کو 5 بجے سے لے کر صبح 8 بجے تک ہسپتال خالی ہو جائیں۔

لہذا اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ہسپتال میں ڈیوٹی کے دوران (ڈاکٹر ہو یا کوئی اور ورکر ہو) ہسپتال کی ترتیب سے کام کرنے سے تنخواہ حلال ہو جا گی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تنخواہ حلال ہونے کے لیے حکومت کے نمائندے ایم ایس یا وارڈ انچارج کی بنائی ہوئی ترتیب پر عمل کرنا کافی ہے۔ لہذا مذکورہ تمام صورتوں میں اگر ایم ایس اور وارڈ انچارج کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو یہ صورتیں جائز ہیں اور تنخواہ حلال ہے۔ [1]

……………………………………………………………… فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1] .  ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وارڈ اور ایمرجنسی میں مریض تو چوبیس گھنٹے ہو مگر ڈاکٹروں کی ڈیوٹی صرف 8- 2 ہو۔ باقی وقت کام کون کرے گا؟

بہر حال! اگر بات ایسے ہی ہے جیسے سوال میں لکھی ہے تو جواب کی تعبیر یہ سمجھ میں آتی ہے:

ہسپتال کے مختلف شعبوں کا قیام اور ذمہ داریوں کا مقصد یہ ہے کہ مریضوں کو کسی امتیازی سلوک کے بغیر ممکنہ سہولت فراہم کی جائے چنانچہ ایم ایس ذمہ دار ہے کہ ایسی ترتیب قائم کرے جس میں کسی مریض کے ساتھ زیادتی یا وقت میں کوتاہی نہ ہو۔ اگر وہ اس نظم کے قائم کرنے یا فعال کرنے میں سستی یا کوتاہی کرتا ہے تو اس کا ذمہ ہوگا اور ماتحت عملہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ ایم ایس کی طرف سے طے شدہ وقت میں فرض شناسی کے ساتھ کام سر انجام دے، وقت کو گپ شب یا موبائل وغیرہ و دیگر مصارف میں ضائع نہ کرے، اگر اس وقت میں غفلت و کوتاہی کریں گے تو ان سے مؤاخذہ ہو گا۔

چنانچہ ایم ایس کی طرف سے قائم کیے گئے نظم کے مطابق فرض شناسی کے ساتھ کام کرنے سے تنخواہ حلال ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved