• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سرکاری ادارے کا اپنے ملازمین کو پیسے دے کر چیزیں دلانے کا حکم ۔اور قرض وصول کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سرکاری ادارہ اپنے ملازمین کو ضروریات زندگی کی خریداری کے لیئے رقم دیتا ہے اور پھر اس کی تنخواہ سے قسطوں پر کٹوتی ہوتی ہے جو کہ دی گئی رقم سے زیادہ ہوتی ہے۔اس کی صورت ذیل میں ہے۔ملازم مطلوبہ رقم جو کہ رینک کے حساب سے مختص ہے کے لئے درخواست دیتا ہے اور ساتھ ہی اس رقم سے جو چیز خریدنی ہے درج کرتا ہے۔مطلوبہ رقم ملازم کے اکاؤنٹ میں آ جاتی ہے اور ملازم اس بات کا پا بند ہوتا ہے کہ وہ  دو ہفتوں کے اندر درخواست پر درج کی گئی چیزوں کو خرید کر بل ادارے میں جمع کروائے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملازم مطلوبہ رقم اور کسی استعمال میں نہیں لایا۔رقم کی واپسی قسطوں پر ہوتی ہے اور لی گئی رقم سے کحچھ زیادہ ہوتی ہے۔حلال و حرام،جائز و ناجائز کی وضاحت فرما دیں۔محمد فضل الحق تحصیل گوجرخان

وضاحت مطلوب ہے کہ:

۱۔ سرکاری ادارہ یہ رقم اپنے پاس سے دیتا ہے یا اس شخص کے کسی حساب جیسے پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ میں سے دیتا ہے؟

۲۔ یہ شرائط نامہ مل سکتا ہے؟

جواب وضاحت :

۱۔سرکاری ادارہ یہ رقم اپنے پاس سے دیتا ہے۔ادارہ پاک فضائیہ ہے۔حضرت ادارے کا یہ کہنا ہے اور شرائط میں یہ لکھا ہے کہ ادارہ ملازم کو اپنا وکیل مقرر کرے گا مطلوبہ اشیا کی خریداری کے لیے۔

۲۔ قواعد وضوابط درج ذیل ہیں:

۱۔ جو بھی امیدوار IFSکے تحت سہولت لینا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ مارکیٹ کا جائزہ لے اور ان چیزوں کو چنے جن کووہ لینا چاہتا ہے یہ کام IFSکی درخواست جمع کرانے سے پہلے کرنا ہو گا۔

۲۔ IFSاس درخواست دہندہ کو وہ مال (چیزیں)اپنا وکیل ہونے کی حیثیت سے خریدنے کی اجازت دے گا۔

۳۔            درخواست دہندہ کو IFSاس کے تنخواہ کے اکائونٹ میں رقم بھیجے گا۔اب وہ درخواست دہندہ اس رقم کی وصول کے دو ہفتے کے اندر اندر IFSکی طرف سے وہ چیز خرید ے گا۔

۴۔            چیزوں کے موصول ہونے کے بعد درخواست دہندہ فورا موصولی کا تصدیق نامہ IFSکو بھیجے گا یہ سارا کام درخواست دہندہ کے اکائونٹ میں IFSسے رقعہ موصول ہونے کے تین ہفتہ کے اندر اندر جانا چاہیے ۔

۵۔            تصدیق نامہ موصول ہوجانے پر درخواست دہندہ اس خریدے ہوئے سامان کو عقدمرابحہ کے تحتcall IFSسے مقررہ شدہ قیمت پر خریدے گا ۔اس قیمت میں اس چیز کی قیمت اور نفع بھی شامل ہو گا۔

۶۔ درخواست دہندہ جو ہے وہ پاک فوج کو اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ عقدمرابحہ میں جو قیمت طے ہوئی ہے اس کو زیادہ سے زیادہ ساٹھ تک قسطوں میںپھیلادے۔

۷۔            درخواست دہندہ خریداری کی رسیدیں اور جو بھی ثبوت ہے IFSکے مطالبہ پر پیش کرنے کا پابند ہو گا۔

۸۔            اور اگر درخواست دہندہ چیزوں کا خریدنا اور پھر تصدیق نامہ کا IFSکو بھیجنا یہ سارا کام اس کے اکائونٹ میں خریدنے کے لیے رقم موصول ہونے کے تین ہفتوں کے اندر اندر نہ کرسکا تو پھر درخواست دہندہ فوری طور پر IFSسے لی گئی کل رقم IFSکو واپس کرے گا۔

۹۔ درخواست دہندہ اس چیز کو لگوانے یا ٹھیک کروانے اور اس طرح کے اور خرچے اپنی جیب سے کریگا ۔

۱۰۔           اور ملازم کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آگیا ہو تو پھر درخواست دہندہ کی جتنی ادائیگی رہ گئی ہے تو اس ساری رقم کا چیک بنا کر ادارے کے پاس بھیج دیا جاتا ہے تاکہ اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو پینشن یا پیسے وغیرہ ملتے ہیں اس میں سے اس کی کٹوتی ہو جائے ۔

۱۱۔            کسی بھی جہالت میں جو رقم چاہیے ہے اس کو لکھا جائے گا اور اگر اس رقم میں کوئی ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے تو وہ بھی ٹھیک ہے ہو ہو جائے گی مثلا کوئی کمی پیشی کرنی ہو یا قسطوں میں پیسوں کا واپس کرنا طے ہوا ہو لیکن اب اکٹھے واپس کرنا چاہتا ہے تو ساری تبدیلیاں قبول ہو جائے گی ار اس سے اگر دوخواست دہندہ نے ادارہ کے کسی اور فنڈ سے قرض کی درخواست جمع کرائی ہے تو اس پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

وضاحت مطلوب ہے :اس شرائط کے مطابق ادارہ امیدوار کو رقم بطور قرض نہیں دیتا بلکہ پہلے امیدوار ادارہ کا وکیل بن کر وہ چیز خریدتا ہے پھر ادارہ اس کو نفع رکھ کر قسطوں میں بیچتا ہے ۔(۱)کیا عملا بھی ایسا ہوتا ہے؟(۲)اور اگر ایسا ہی ہے تو ادارہ کس وقت امیدوار کو چیز بیچتا ہے؟

جواب وضاحت :       ملازم درخواست والے فارم پر چیزوں کا اندراج کرکے ادارے میں جمع کروادیتا ہے ادارہ رقم ملازم کے بینک اکائونٹ میں بھجوا دیتا ہے ۔ملازم چیزوں کی خریداری کرکے بل ادارے کو دکھاتا ہے کہ میں نے رقم سے مطلوبہ چیزیں ہی خریدیں ہیں ۔کچھ ملازم یہ بھی کرتے ہیں کہ چیزیں نہیں خریدتے لیکن بل لاکر ادارے کو دے دیتے ہیں ۔دوبارہ سے چیزیں ملازم کو بیچنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوتا کیونکہ چیزیں پہلے سے ملازم کے پاس ہیں بس اگلے ماہ سے ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی شروع ہو جاتی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر تین باتوں کا اہتمام ہو تو یہ پالیسی جائز ہے :

۱۔ واقعتا درخواست دہندہ ادارے کا وکیل بن کر مال خریدے ۔

۲۔ پھر ادارے کا نمائندہ اس مال پر عملا قبضہ کرے ۔

۳۔            پھر ادارہ یا اس کا نمائندہ وہ مال درخواست دہندہ کو باقاعدہ طور پر مرابحۃ فروخت کرے ۔

اگر مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی رہ گئی تو مذکورہ پالیسی جائز نہ ہو گی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved