• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سرکاری اداروں سے معاملات

استفتاء

واپڈا، سوئی گیس،P.T.C.L ودیگر محکموں سے پی کمپنی کے معاملات چل رہے ہوتے ہیں، اس سلسلے میں بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جو رشوت کے بغیر حل ہی نہیں ہوتے۔

بعض دفعہ سرکاری محکموں میں کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہاں کام کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ اب پی کمپنی نے کوئی کام فوری طور پر کروانا ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں اگر ان کو کچھ پیسے نہ دئیے جائیں تو وہ کام فوری نہیں ہوتا بلکہ  چھ ماہ یا سال تک تاخیر کا شکار ہوجاتاہے۔

سرکاری اداروں میں مجبوری کی صورت میں رشوت دیکر کام کروانے کا کیا حکم ہے؟ نیز جلدی کام کروانے کی غرض سے رشوت دینا کیساہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اصولی طور پر اگر کام بنیادی ضرورت سے متعلق ہو اور ادارہ بلاوجہ ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو تو ایسی صورت میں آپ کے لیے رشوت دینا جائز ہو گا تاہم ادارہ کے لیے پھر بھی ناجائز ہو گا۔ اس لیے جب کوئی صورتحال درپیش ہو تو کسی قابل اعتماد دارالافتاء سے کام کی تفصیل ذکر کر کے معلوم کر لیا جائے۔

(۱) قال تبارک و تعاليٰ: (النساء: ۲۹)

يا يها الذين اٰمنوالا تاکلوا اموالکم بينکم بالباطل۔

(۲) جامع الترمذي: (الراشي والمرتشي في الحکم:۲/۶۲۳) طبع الشاملة۔

عن عبداللّٰه بن عمر قال: لعن رسول الله ﷺ الراشي و المرتشي۔

(۳)         الشامية: (کتاب القضاء: ۵/۳۶۲) طبع سعيد

في المصباح: الرشوه بالکسر مايعطيه الشخص الحاکم وغيره ليحکم له او يحمله علي ما يريد… و في الفتح۔ ثم الرشوة اربعة اقسام: منها ما هو حرام علي الآخذ والمعطي۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved