• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سرکاری پراجیکٹس پر پی کمپنی کامال ڈیلیورنہ ہونے کی وجہ

استفتاء

***میں سرکاری سطح پر واٹر سپلائی اور سیوریج کا سب سے بڑا نظام Wasa کا ہے۔***سے باہر پبلک ہیلتھ اینڈ انجنیئرنگ ڈپارٹمنٹ (PHED) کا ہے۔ اسی طرح اور بھی سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں جیسے  NESPAK, LDA, PWD, CW وغیرہ جو کہ بہت بڑے پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ ان سرکاری  اداروں کے پاس اپنے رجسٹرڈ کنٹریکٹرز کی ایک لسٹ موجود ہوتی ہے جو کہ تقریباً 15 سے 20 تک ہوتے ہیں یہ کنٹریکٹر سرکاری کہلاتے ہیں۔ ان سرکاری اداروں نے جہاں بھی کسی پراجیکٹ پر کام کرنا ہو تو یہ ادارے اپنے رجسٹرڈ کنٹریکٹرز سے ہی کام کرواتے ہیں اوریہ کنٹریکٹرز صرف انہی کمپنیوں کا ما ل منگواتے ہیںجن کے پاس ان سرکاری اداروں کی منظوری  (Approval)ہو۔ اگر پی کمپنی بھی ان سرکاری اداروں سے منظوری (Approval) لے لے تو ان اداروں کے کنٹریکٹرز پی کمپنی کا مال بھی منگوائیں گے جس سے پی کمپنی کی سیل میں خاصی ترقی ہو جائے گی اور بہت سی ایسی جگہیں جہاں پی کمپنی کا مال نہیں جارہا وہاں بھی پی کمپنی کا مال جانا شروع ہو جائے گا۔

پی کمپنی کے پاس 2009 ء تک PHED کی منظوری  (Approval)تھی ،لیکن اس کے بعد اب تک اس کی تجدید (Renew) نہیں کی۔ اس کے علاوہ دیگر سرکاری ادارے مثلا واسا، ایل ڈی اے، نیسپاک کی منظوری   (Approval)پی کمپنی کے پاس نہیں ہے اور منظوری نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ ان سرکاری اداروں سے منظوری لینے کے لیے کلرک سے لے کر اعلیٰ انتظامیہ تک رشوت دینی پڑتی ہے۔ اگر کلرک سے فائل آگے نکالنی ہو تو اس کے لیے کلرک کو کچھ دینا پڑتا ہے اس کے بعد جب فائل آٹھویں یا نویں اسکیل کے ملازم کے پاس جاتی ہے تو اسے بھی کچھ دینا پڑتا ہے اس کے بعد وہ فائل OK کرتا ہے اور اگر ان ملازمین نے پی کمپنی کے دفتر آنا ہو تو ان کو اچھا کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد جب فائل اعلیٰ انتظامیہ (Top Mangment) کے پاس جاتی ہے تو ان کے ریٹ بہت اونچے ہوتے ہیں بعض اوقات انہیں گاڑی بھی دینی پڑتی ہے یا بھاری مقدار میں کیش دینا پڑتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان سرکاری اداروں میں منظوری لینے کے لیے نیچے والے ملازم سے لے کر ٹاپ مینجمنٹ تک اچھی خاصی رشوت دینی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ سے پی کمپنی نے اب تک ان سرکاری اداروں سے منظوری نہیں کرائی۔ جب کہ پی کمپنی یہ چاہتی ہے کہ کسی جائز طریقے سے ان اداروں سے منظوری ہو جائے تاکہ ان اداروں کے کنٹریکٹرز پی کمپنی کا مال بھی منگوائیں ۔ نیز ان اداروں میں سفارش سے بھی زیادہ کام نہیں چلتا ۔کیونکہ اگر سفارش پر یہ ادارے والے کام کرنا شروع کر دیں تو پھر ہر کسی کا کوئی نہ کوئی جاننے والا کہیں نہ کہیں سے نکل آتا ہے ۔اس طرح پھر ان سرکاری اداروں کے ملازمین کی کمائی بند ہو جائے گی۔ (1) آیا یہ مذکورہ بالا نظام کے پیش نظر پی کمپنی کے لیے ان سرکاری اداروں سے منظوری لینے کی کوئی گنجائش ہے؟ (2) اگر پی کمپنی یہ صورت اختیار کرے کہ خود ان سرکاری اداروں سے منظوری نہ لے بلکہ کسی شخص کے ذریعے (جو کہ مارکیٹ میں کنسلٹنٹ کے نام سے معروف ہوتے ہیں اور وہ لم سم اجرت کے بدلے سرکاری اداروں سے منظوری لے دیتے ہیں) لم سم اجرت کے عوض مذکورہ بالا سرکاری اداروں سے منظوری حاصل کر لے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے یا نہیں ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ بالانظام کے پیش نظر کمپنی کے لیے ان سرکاری اداروں سے منظوری لینے کی گنجائش نہیں خواہ***یہ منظوری خود لے یا مارکیٹ میں موجود کسی کنسلٹنٹ کے ذریعے لے۔ دونوں طرح ناجائز ہے۔ کیونکہ مذکورہ بالا نظام کے پیش نظر ان سرکاری اداروں سے منظوری لینے کے لیے ان اداروں کو کچھ رشوت دینی پڑتی ہے۔

(١) لما في البخاري: ٩/٧٦ (رقم الحدیث:  ٧١٩٧) طبع شامله

حدثنا عبيد بن إسماعيل، حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن أبي حميد الساعدي، قال: استعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا على صدقات بني سليم، يدعى ابن اللتبية، فلما جاء حاسبه، قال: هذا مالكم وهذا هدية. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فهلا جلست في بيت أبيك وأمك، حتى تأتيك هديتك إن كنت صادقا» ثم خطبنا، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: ” أما بعد، فإني أستعمل الرجل منكم على العمل مما ولاني الله، فيأتي فيقول: هذا مالكم وهذا هدية أهديت لي، أفلا جلس في بيت أبيه وأمه حتى تأتيه هديته، والله لا يأخذ أحد منكم شيئا بغير حقه إلا لقي الله يحمله يوم القيامة، فلأعرفن أحدا منكم لقي الله يحمل بعيرا له رغاء، أو بقرة لها خوار، أو شاة تيعر ” ثم رفع يده حتى رئي بياض إبطه، يقول: «اللهم هل بلغت» بصر عيني وسمع أذني.

(٢) سنن أبي داؤد: (3/300)

حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا ابن أبي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن، عن أبي سلمة عن عبد الله بن عمرو، قال: لعن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – الراشي والمرتشي.

(٣) الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار:5/372)

( ويرد هدية ) التنكير للتقليل، ابن كمال. وهي ما يعطى بلا شرط إعانة بخلاف الرشوة

قوله: (ويرد هدية ) الأصل في ذلك وما في البخاري ، عن أبي حميد الساعدي ((قال استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الأزد يقال له ابن اللتبية على الصدقة فلما قدم قال: هذا لكم، وهذا لي قال عليه الصلاة والسلام هلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر أيهدى له أم لا)) قال عمر بن عبد العزيز : كانت الهدية على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم هدية واليوم رشوة .

ذكره البخاري ، واستعمل عمر أبا هريرة فقدم بمال فقال له من أين لك هذا ؟ قال : تلاحقت

الهدايا فقال له عمر أي عدو الله هلا قعدت في بيتك ، فتنظر أيهدى لك أم لا فأخذ ذلك منه ، وجعله في بيت المال ، وتعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية فتح…

قال في جامع الفصولين: القاضي لا يقبل الهدية من رجل لو لم يكن قاضيا لا يهدي إليه ويكون ذلك بمنزلة الشرط …. تعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية وكذا قوله وكل من عمل للمسلمين عملا حكمه في الهدية حكم القاضي اهـ.

(٤) الفتاوی الهندیة: (3/330)

الهدیة مال یعطیه ولا یکون معه شرط والرشوة مال یعطیه بشرط أن یعینه کذا في خزانة المفتین.

(٥) البحر الرائق شرح کنز الدقائق ومنحة الخالق وتکملة الطوری: (6/305)

الفرق بين الهدية والرشوة أن الرشوة ما كان معها شرط الإعانة بخلاف الهدية وفي خزانة المفتين مال يعطيه ولا يكون معها شرط والرشوة مال يعطيه بشرط أن يعينه.

تنبیه: ”قد تقرر في موضعه أن المعروف کالمشروط”  فقط والله تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved