- فتوی نمبر: 21-368
- تاریخ: 13 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
محترم جناب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایک 18 سالہ لڑکی کی شادی کے دو، تین مہینے بعد اس کے سسر نے اسے تنگ کرنا شروع کیا۔ اپنی بہو کو اکیلے میں بلاکر اور اس کو ڈرا دھمکا کر اس کے بدن پر ہاتھ لگانا شروع کردیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ آگے بڑھتا گیا مثلاً اپنی بہو کو پیٹ سے اور کمر سے چومنا اور زنا کے علاوہ بدن پر کپڑوں کے نیچے سے ہاتھ لگانا، چھاتی کو دبانا وغیرہ۔ پورے رمضان کے مہینے میں یہ بدبخت سسر اپنی بہو کے ساتھ یہ زیادتی کرتا رہا۔ لڑکی ڈر کی وجہ سے اپنے شوہر کو کچھ نہ بتا سکی اور اپنے ماں باپ کے گھر آکر انہیں سب کچھ بتایا، اب باپ اپنی بیٹی کو اس کے گھر نہیں جانے دیتا۔
محترم جناب سوال یہ ہے کہ کیا اس لڑکی کا اپنے شوہر کے ساتھ نکاح ٹوٹ گیا ہے یا نہیں؟ اور اگر نکاح نہیں ٹوٹا تو اب اس لڑکی کو کیا حکم ہے کہ یہ کسی طرح اپنے شوہر کے گھر رہ سکے۔
نوٹ: برائے مہربانی مسئلہ چونکہ حد سے زیادہ نازک ہے ہمیں جلد از جلد جواب کی ضرورت ہے۔
وضاحت مطلوب ہے کہ: (۱) سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟
(۲) کیا شوہر بیوی کی تصدیق کرتا ہے؟
جوابِ وضاحت: (۱) یہ واقعہ میری سالی کے ساتھ پیش آیا ہے۔ لڑکی کا والد ان پڑھ ہے اس نے مجھے بتایا اور میں نے لکھ کر بھیج دیا۔
(۲) شوہر اس معاملے میں ایک طرف نہیں ہے۔ بیوی کی بات کبھی مانتا ہے اور کبھی نہیں مانتا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں فقہ حنفی کے عام ضابطے کی رو سے حکم یہ ہے کہ اگر شوہر بیوی کی تصدیق کرتا ہے تو بیوی شوہر پر حرام ہو جائے گی، اور اگر شوہر بیوی کی بات کی تصدیق نہیں کرتا اور اس بات پر قسم بھی دیتا ہے کہ ’’میرا غالب گمان یہ ہے کہ میری بیوی اپنے دعوے میں سچی نہیں اور اس واقعہ کا ہونا میرے دل کو نہیں لگتا‘‘ تو بیوی شوہر پر حرام نہ ہوگی، لیکن اگر بیوی اپنے دعوے میں سچی ہے تو اس کے لیے شوہر کو اپنے نفس پر قدرت دینا جائز نہیں۔
البتہ موجودہ دور میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی شوہر پر حرام نہ ہو گی اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،اس کی تفصیل ’’فقہ اسلامی‘‘ مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب میں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے۔
فتح القدیر (213/3)میں ہے:
وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها: لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه. ثم رأيت عن أبي يوسف أنه ذكر في الأمالي ما يفيد ذلك، قال: امرأة قبلت ابن زوجها وقالت كان عن شهوة، إن كذبها الزوج لا يفرق بينهما، ولو صدقها وقعت الفرقة.
عالمگیری (1/276) میں ہے:
رجل تزوج امرأة على أنها عذراء فلما أراد وقاعها وجدها قد افتضت فقال لها: من افتضك؟. فقالت: أبوك إن صدقها الزوج؛ بانت منه ولا مهر لها وإن كذبها فهي امرأته، كذا في الظهيرية.
حیلہ ناجزہ (88) میں ہے:
’’جب عورت دعویٰ کرے کہ میرے اور خاوند کے اصول و فروع میں سے فلاں مرد کے درمیان یا خاوند اور میرے اصول و فروع میں سے فلاں عورت کے درمیان ایسا ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو حرمت مصاہرت کا موجب ہے لہذا مجھ کو میرے خاوند سے الگ کردیا جائے تو قاضی یا اس کا قائم مقام اولا شوہر سے بیان لے، اگر اس نے عورت کے بیان کی تصدیق کر دی تب تو تفریق کا حکم کر دیا جائے اور اگر خاوند نے اس کے دعوی کی تصدیق نہ کی تو عورت سے گواہ طلب کیے جائیں اگر گواہ پیش نہ ہوں یا ان میں شرائط شہادت موجود نہ ہوں تو خاوند سے حلف لیا جائے اگر وہ حلف کرلے تو مقدمہ خارج کر دیا جائے،یعنی نہ تفریق کی جائے اور نہ یہ حکم کیا جائے کہ عورت بدستور شوہر کے ساتھ رہے، اور اگر وہ حلف سے انکار کر دے تو تفریق کر دی جائے۔
درمختار (4/121) میں ہے:
(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي.
حیلہ ناجزہ(90) میں ہے:
وأما توجيه اليمين فظاهر للقاعدة المقررة من أن قول المنكر انما يعتبر مع اليمين ونص عليه الفقهاء فى باب الرضاع وحرمة المصاهرة نظير حرمة الرضاع.
حیلہ ناجزہ (91) میں ہے:
اگر عورت کا دعوی صحیح تھا مگر شہادت معتبرہ پیش نہ ہوسکی اور خاوند نے حلف کرلیا اس واسطے قاضی نے مقدمہ خارج کردیا یعنی نہ تفریق کی اور نہ زوجیت میں رہنے کا حکم دیا تو اس عورت کے لئے جائز نہیں کہ اپنے اختیار سے شوہر کو اپنے نفس پر قدرت دے بلکہ خلع وغیرہ کے ذریعہ اپنے آپ کو اس سے علیحدہ کرنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی تدبیر کارگر نہ ہو تو جب تک اپنا بس چلے اس شوہر کو پاس نہ آنے دے (كما صرح به فى الدرالمختار و غيره فى من سمعت من زوجها الطلاق الثلاث و لا بينة لها)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved