• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سسر کا اپنی بہو کو بغیر شہوت کے چھونے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ میں اپنے والد صاحب کی اکلوتی نرینہ اولاد ہوں، میرا نکاح میری ماموں زاد سے 2017میں ہوا، نکاح سے پہلے مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ میری اہلیہ ڈپریشن کا شکار ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر نے کہا کہ اس کی شادی کرادو یہ ٹھیک ہوجائے گی مگر شادی کے بعد بھی وہ بیماری ٹھیک نہیں ہوئی، ڈاکٹروں سے علاج کروانے پر پتہ چلا کہ اس کو ڈپریشن کی نہیں وہموں کی بیماری ہے، اس کو انجانا سا خوف بھی ہوتا ہے اس کا مستقل علاج چل رہا ہےجس کی دوائی وہ استعمال کررہی ہے۔ شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں، پہلے میری سوتیلی والدہ کی غلط حرکت کی وجہ سے میری اہلیہ میری سوتیلی والدہ سے جھگڑا کرکے ہمارے گھر سے اپنے والدین کے پاس فروری2018 میں رہنے کے لیے چلی گئی اور ڈھائی سال تک وہاں رہی، وہاں میرا بیٹا پیدا ہوا، جب اہلیہ اپنے والدین کے گھر تھی تو میری سوتیلی والدہ اکتوبر2019ء میں انتقال کر گئیں، ان کے انتقال کے بعد گھر میں صرف دو افراد میں اور میرے والد صاحب رہ گئے جن کی عمر 77 سال ہے، والد صاحب کے بڑھاپے کی وجہ سے ذہنی حالت مکمل ٹھیک نہیں ہے، وہ گھر میں اکیلے ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے کہا کہ میری تیسری شادی کروا دو تاکہ گھر میں کوئی عورت ہو جوکہ گھر میں ان کو اور مجھے کھانا پکا دیا کرے اور میری غیر موجودگی میں ان کے پاس ہو جس سے وہ باتیں بھی کر لیا کریں اس سے متعلق انہوں نے مجھے اور مختلف رشتہ داروں کو کہنا شروع کر دیا تھا مگر تادم تحریر ان کی تیسری شادی نہیں ہو سکی، اگست 2020 میں اہلیہ کے ساتھ صلح ہوگئی اور وہ میرے گھر واپس آ گئی جو کہ مارچ 2021 تک ہمارے ساتھ رہی، اگست 2020 سے مارچ2021  کے دوران میرے والد صاحب نے میری اہلیہ سے مختلف اوقات میں میری غیر موجودگی میں کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو کہ نامناسب ہیں جو میرے مطابق ان کی بڑی عمر کی وجہ سے ہیں، وہ ایک وقت میں ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے دوسری بات کرتے ہیں، انہوں نے میری اہلیہ کو درج ذیل جملے کہے ہیں:

1:ان کا نکاح میرے مرنے کے بعد میری اہلیہ سے ہو سکتا ہے.

2: میرا دل کرتا ہے کہ تم کو زور سے گلے سے لگا لوں گا۔

3: تم اگر میرے ساتھ والے بستر پر بھی سو رہی ہو گی تو میں تمہارے ساتھ کوئی بدکاری نہیں کروں گا۔

اہلیہ کے بقول درج ذیل حرکات والد صاحب نے میری غیر موجودگی میں کی تھیں:

1:بہو کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھ کی لکیریں دیکھیں جب وہ دن کے وقت باورچی خانہ میں کام کر رہی تھی۔

2:گیراج میں دن کے وقت جب وہ پانی والی موٹر چلانے کے لئے گئی تھی تو اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔

3:باورچی خانہ میں جب وہ برتن دھو رہی تھی تو شاباش دینے کے انداز میں کمر پر ہاتھ پھیرا تھا۔

اہلیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ میری غیر موجودگی میں وہ دوائی کھا کر سوئی تھی اور رات کو دروازے کے اندر کی طرف سے جو رسی باندھ کر سوئی تھی  صبح کو اٹھ کر نو بجے کے بعد دیکھا تو وہ رسی دو تین انچ کھچی ہوئی تھی اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی تھی۔

اس سلسلہ میں شریعت کی روشنی میں مکمل راہنمائی فرمادیں کہ مذکورہ بالا حالات و واقعات میں( 1)  کیا میری اہلیہ مجھ پر شرعی طور پر حلال ہےیا حرام؟ (2) کیا میں اور میری اہلیہ ایک دوسرے کے ساتھ شرعی طورپر میاں بیوی  کی طرح رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ (3)اہلیہ کو والد صاحب کے ساتھ کیسے رکھا جائے؟ کیونکہ والد صاحب میری خدمت کے مستقل محتاج ہیں۔

نوٹ: سائل اپنے والد کے ساتھ دارالافتاء آیا تھا اس کے والد صاحب نے یہ بیان دیا کہ مذکورہ تینوں واقعات میں بہو کو ہاتھ لگاتے وقت اس کو بالکل شہوت نہیں تھی، نہ ذکر میں انتشار ہوا اور نہ دل میں حرکت ہوئی اور بیٹے نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میرا غالب گمان یہی ہے کہ میرے والد صاحب سچ کہہ رہے ہیں، نیز سائل نے فون کال کے ذریعے اپنی بیوی سے بات کروائی تو اس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذکورہ واقعات اسی طرح ہوئے تھے اور جب سسر نے مجھے چھوا تو تینوں واقعات میں مجھے شہوت نہیں تھی، اور میرا ظن غالب یہی ہے کہ  میرے سسر کو  بھی شہوت نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس ہاتھ کی لکیریں دیکھنے کا علم ہے اور اسی نیت سے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور  ہاتھ کی لکیریں دیکھی تھیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-2 ) اگر واقعتا مذکورہ افعال (یعنی سسرکے بہو کا ہاتھ پکڑ کر لکیریں دیکھنے یا ہاتھ پکڑ نے یا کمر پر ہاتھ پھیرنے) کے وقت نہ سسر کو شہوت تھی اور نہ بہو کو شہوت تھی اور نہ بہو کے غالب گمان کے مطابق سسر کو شہوت تھی جیسا کہ سسر اور بہو  کے بیانات میں مذکور ہے تو مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی اور آپ کی بیوی آپ پر حلال ہے اور آپ اور آپ کی اہلیہ میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورتوں میں جب سسر نے بہو کا ہاتھ پکڑ کر ہاتھ کی لکیریں دیکھیں اور گیراج میں بہو کا ہاتھ پکڑا اور برتن دھوتے وقت بہو کی کمر پر ہاتھ پھیرا تو چونکہ اس وقت سسر کو شہوت نہیں تھی اور بہو کو بھی شہوت نہیں تھی اور بہو کا غالب گمان بھی یہی ہے کہ سسر کو شہوت نہیں تھی اور شوہر بھی والد کی تصدیق کرتا ہے، لہذا میاں بیوی دونوں کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی کیونکہ  شوہر کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ چھونا شہوت سے ہو اور شوہر بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہو کہ میرے والد نے میری بیوی کو شہوت سے چھوا ہے اور بیوی کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کو غالب گمان ہو کہ اس کے سسر نے اسے شہوت سے چھوا ہے  اور مذکورہ صورت میں یہ شرائط نہیں پائی گئیں لہٰذا حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی، نیز محض باتیں کرنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، لہذا سسر نے بہو سے جو جملے کہے ہیں ان سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی۔

(3) والدین کی خدمت کرنا اگرچہ اولاد کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اولاد کو یہ ذمہ داری ہر حال میں ادا کرنی ہوتی ہے لیکن آپ اپنی بیوی کو تنہائی میں والد کے پاس چھوڑ کر نہ جایا کریں اور جلد از جلد اپنے والد کی شادی کروادیں۔

درمختار(4/113)میں ہے:

(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنى الوطء الحرام (و) اصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة (واصل ماسته وناظرة الى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج او ماء هى فيه (وفروعهن) مطلقا، والعبرة للشهوة عند المس والنظر لابعدهما وحدها فيهما تحرك آلته او زيادته، به يفتى. وفي إمرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه او زيادته

فتح القدیر (3/213)میں ہے:

وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه اياها: لاتحرم على أبيه وإبنه إلا ان يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه. ثم رأيت عن أبى يوسف أنه ذكر في الامالى ما يفيد ذالك، قال: إمرأة قبلت ابن زوجها وقالت كان عن شهوة، إن كذبها الزوج لايفرق بينهما، ولو صدقها وقعت الفرقة.

البحر الرائق(3/116) میں ہے:

وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف ، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق

درمختارمع ردالمحتار(4/121)میں ہے:

(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هى

وفي الشامية تحت قوله: (فهو مصدق) لأنه ينكر ثبوت الحرمة والقول للمنكر

حاشیۃالطحطاوی علی الدر(2/17)میں ہے:

(قوله: وإن ادعت الشهوة) أى ادعت وجود الشهوة منه مع اعترافها بعدم وجودها منها وقد تقدم أن وجودها من أحدهما في المس كاف، قال المقدسي: لو قبل إمرأة ابيه بشهوة أو الاب امرأة ابنه بشهوة وهى مكرهة وانكر الزوج كونه بشهوة فالقول له لانه ينكر بطلان ملكه وان صدقت حرمت اه‍.

(قوله: وانكرها الرجل) أى زوجها فهو مصدق لانه ينكر بطلان ملكه وان صدقها الزوج وقعت الفرقة.

امدادالاحکام(2/778)میں ہے:

سوال: ایک شخص نے اپنے لڑکے کی عورت سے فعل بد کرنے کی نیت سے اپنے دل کا راز بیان کیا اور کسی وقت موقع پا کر اس عورت سے جو اس کے بیٹے کی زوجہ ہے اس کا ہاتھ پکڑا لیکن دل کی مراد پوری نہ کر سکا اور کتنی راتوں کو اس عورت کے بستر کو خالی پاکر اس کے بستر پر جا کر سویا اور اس کے بدن پر ہاتھ رکھا لیکن جب عورت مذکور نیند سے بیدار ہوئی فوراً اٹھ کر بھاگی اور اپنی حرمت وعزت کو بچائی کسی وقت وہ مرد اس کو اپنے قابو میں نہ لاسکا  اور ایک بار اس عورت کو ان کے والد کے مکان سے لاتے وقت اسی مرد مذکور نے یعنی اس عورت کے خاوند کے والد نے راستہ میں اکیلا پاکر اس دن بھی اپنے دل کی باتیں بیان کیں اور بعض بعض دفعہ ہاتھ پکڑا لیکن عورت نے اپنی عزت کو بچائی اور مرد مذکور اس معاملہ کا انکار کرتے ہوئے قرآن شریف کی قسم کھانے  کا  وعدہ کرتا ہے۔ اب اس عورت کے بارے میں شریعت محمدیہ کا کیا حکم ہے؟ یعنی اس عورت کو رکھنا اس مرد کے لڑکے کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اگر رکھے تو اس کے واسطے نکاح دوبارہ کرنا ہوگا یا نہیں. نیز اس عورت پر طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب……………………………: قال في البحر وفي فتح القدير: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال: إن فى مسه إياها لاتحرم على أبيه وإبنه الا أن يصدقاها أو يغلب على ظنهما صدقها ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذالك اه‍.

قلت: ولما كان ثبوت الحرمة مشروطا بالتصديق وإذا فات الشرط فات المشروط فلا تثبت الحرمة بدون التصديق وإذا لم تثبت يحل للمرأة القيام مع زوجها ولكن يحتمل أن يكون المراد الثبوت قضاء ويؤيده ما في الفتح بعد كلامه المذكور ثم رأيت ابا يوسف أنه ذكر في الامالى، قال امرأة: قبلت إبن زوجها وقالت كان عن شهوة إن كذبها الزوج لايفرق ببنهما ولو صدقها وقعت الفرقة اه‍(٣/١٣٠)

وأما ديانة فينبغي أن تفتى المرأة بحرمة تمكينها إياه على نفسها فلا تمكنه بالرضاء وتسعى في الامتناع منه بالهرب أو بالخلع كما إذا طلقها ثلاثا وأنكر تطليقه إياها ولا بينة لها فإنه لا يفرق بينهما قضاء ويفتى في حق المرأة بالتحريم ووجوب الامتناع منه.

خلاصہ یہ کہ صورت مسؤلہ میں اگر عورت کو خسر کے متعلق شہوت وبدنیتی کا دعوی ہے کہ اس نے شہوت سے اس کو مس کیا ہے اور عورت کے پاس بینہ نہیں ہے اور خسر اور شوہر دونوں عورت کی تکذیب کرتے ہیں تو قضاء اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی اور ظاہر میں نکاح صحیح ہے لیکن چونکہ عورت کو اپنا سچا ہونا معلوم ہے اس لیے اس کو اپنے حق میں اس نکاح کو فاسد سمجھنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو شوہر سے علیحدہ ہوجائے اور اپنی رضا سے شوہر کو اپنے اوپر قابو نہ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved