• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سسرکابہو کو شہوت کے ساتھ بوسہ دینا

استفتاء

بیوی کا بیان:

میری شادی کو تین سال ہو چکے ہیں الحمدللہ دو بچے بھی ہیں۔میں اپنی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزار رہی تھی کہ ایک صبح میری زندگی میں ایسی  آئی کی میری روح تک کانپ گئی ،میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ۔

جولائی 2020 کو  ہفتے کی صبح چھ بجے میں اپنے دو سالہ بیٹے کے ساتھ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کمرے کے باہر بیٹھی تھی کہ میرے سسر صاحب اپنے کمرے سے باہر تشریف لائے اور مجھے اکیلے کمرے میں بلایا ،میں اندر گئی تو انہوں نے میرے شوہر کا پوچھا کہ وہ کہاں ہیں ؟میں نے بتایا کہ سو رہے ہیں ،تب انہوں نے مجھے اشارے سے کہا کہ بیٹھ جاؤ ،میں بیٹھ گئی،  اس دوران انھوں نے کوئی بات نہ کی ،جب میں اٹھ کر کھڑی ہوئی تو انہوں نے مجھے زور سے دبوچ کر گلے لگالیا اور چہرے پر بوسہ بھی دیا ،میں اپنے آپ کو چھڑا نہ پائی،جب دھکا دے کر پیچھے ہوئی اور فوراً کمرے سے نکلنے لگی تو میرے سسر صاحب نے آواز دی اور کہا ’’اچھو نا کج کری کنیا‘‘جس کا مطلب یہ تھا کہ آؤ نا کچھ کر لیں، یہ اشارہ کمرے کی چارپائی کی طرف کرکے کہا،جب میں نے انکار میں سر ہلایا اور اپنے کمرے کی طرف دوڑی تو کہنے لگے دو منٹ بھی نہیں لگیں گے ،میں فورا ًاپنے کمرے میں آگئی اور کمرہ لاک کر لیا،جبکہ میرا دو سالہ بچہ باہر ہی کھیل رہا تھا اور میں نے اسے باہر ہی چھوڑ کر کمرہ لاک کر لیا ،میرے شوہر سو رہے تھے ،میں کمرے کے واش روم میں جا کر خوب روئی، رو رو کر جب چپ ہوئی تو وضو کر کے باہر آئی اور دو نفل شکرانے کے ادا کیے کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا تھا اور میرے اللہ نے مجھے بچا لیا،جب میرے شوہر جا گےتو انہیں ساری بات بتائی،ابتداء وہ بھی نہ مانے کہ میرے والد صوم و صلوۃ کے پابند ہیں مگر جب میرے گرتے ہوئے آنسو دیکھے  اور ہچکی بندھی ہوئی آواز میں انہوں نے میری پوری بات سنی تو انہیں بھی مجھ پر یقین آگیا۔

سسر صاحب سے جب میرے شوہر نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟سسر صاحب نے صاف صاف انکار کر دیا کہ ایسی تو کوئی بات ہوئی ہی نہیں،میں نے آپ (بہو) کو بلایا اور آپ سے ملا ہوں ،ساری بہوویں مجھ سے ملتی ہیں،میں نے کہا کہ آپ نے بلایا اور کہا کہ آؤ یہ کر لیں اب آپ نہ مانیں تو اور بات ہے،لیکن قیامت کے دن اللہ سات گواہ لائیں گے اور سات گواہ اس کی گواہی دیں گے تو کہنے لگے کہ بالکل ایسے ہی ہے،اب اس بات کو ادھر ہی ختم کر دو ،نہ ہی میری بےعزتی کرونہ ہی اپنی۔

سسرال میں باقی سب کی طرف سے بھی یہی رویہ ہے کہ اس نے ہمارے والد صاحب پر الزام لگایا ہے لیکن شوہر میرے ساتھ ہیں، میری بات کو تسلیم کرچکے ہیں، میں  حاملہ ہوں ۔ برائے مہربانی مفتی صاحب قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیے کہ میرا اپنے شوہر سے نکاح ٹوٹ گیا ہے یا نہیں؟  وضاحت سے مسئلہ کا حل بتائیے۔

شوہر کا بیان:

میرا نام اسحاق ہے، میں اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر حلفا بیان کرتا ہوں کہ میری بیوی نے مجھے بتایا کہ میرے والد نے اسے شہوت سے ہاتھ لگایا ہے،اسے زبردستی گلے لگایا ہے،رخسار پر بوسہ دیا ہے، میں تصدیق کرتا ہوں کہ میری بیوی سچی ہے اور میرے والد ایسا کر سکتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر  بیوی کی تصدیق کرتا ہے لہذا فقہ حنفی کے عام ضابطے کی رو سے تو بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے البتہ موجودہ دور میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی شوہر پر حرام نہ ہو گی اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،اس کی تفصیل "فقہ اسلامی” مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب میں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے۔

توجیہ: فقہ حنفی کے عام ضابطے کی رو سے ابن ہمام رحمہ اللہ کے قول کے مطابق تو ثبوت حرمت واضح ہے کیونکہ وہ تقبیل علی الخد کو تقبیل علی الفم کے ساتھ لاحق کرتے ہیں جس میں اصل وجود شہوت ہے۔ اور جو حضرات تقبیل علی الخد کو تقبیل علی الفم کے ساتھ لاحق نہیں کرتے اور عدم شہوت کو اصل مانتے ہیں ان کے نزدیک بھی مذکورہ صورت میں حرمت ثابت ہو جائے گی کیونکہ شوہر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ میرے والد نے شہوت سے بوسہ دیا ہے۔

فتح القدیر(213/3) میں ہے:

وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها: لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه. ثم رأيت عن أبي يوسف أنه ذكر في الأمالي ما يفيد ذلك، قال: امرأة قبلت ابن زوجها وقالت كان عن شهوة، إن كذبها الزوج لا يفرق بينهما، ولو صدقها وقعت الفرقة.

عالمگیری (1/276) میں ہے:

رجل تزوج امرأة على أنها عذراء فلما أراد وقاعها وجدها قد افتضت فقال لها: من افتضك؟ . فقالت: أبوك إن صدقها الزوج؛ بانت منه ولا مهر لها وإن كذبها فهي امرأته، كذا في الظهيرية.

حیلہ ناجزہ(89) میں درمختار کے حوالے سے مذکور ہے:

 (وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي.

حیلہ ناجزہ (88) میں ہے:

جب عورت دعویٰ کرے کہ میرے اور خاوند کے اصول و فروع  میں سے فلاں مرد کے درمیان یا خاوند اور میرے اصول و فروع میں سے فلاں عورت کے درمیان ایسا ایسا واقعہ پیش آیا ہے جو حرمت مصاہرت کا موجب ہے لہذا مجھ کو میرے خاوند سے الگ کردیا جائے تو قاضی یا اس کا قائم مقام اولا شوہر سے بیان لے، اگر اس نے عورت کے بیان کی تصدیق کر دی تب تو تفریق کا حکم کر دیا جائے اور اگر خاوند نے اس کے دعوی کی تصدیق نہ کی تو عورت سے گواہ طلب کیے جائیں اگر گواہ پیش نہ ہوں یا ان میں شرائط شہادت موجود نہ ہوں تو خاوند سے حلف لیا جائے اگر وہ حلف کرلے تو مقدمہ خارج کر دیا جائے،یعنی نہ تفریق کی جائے اور نہ یہ حکم کیا جائے کہ عورت بدستور شوہر کے ساتھ رہے، اور اگر وہ حلف سے انکار کر دے تو تفریق کر دی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved