• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سسر کا بہو سے بوس وکنار کرنے کا حکم

استفتاء

معزز علمائے  کرام میرا نام ****ہے میری عمر تقریبا 58 سال ہے اور میرے 5 بیٹے ہیں  اور تمام بیٹے شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔ میرے سب سے بڑے بیٹے کا نام محمد ****د ہے جو کہ عرصہ 18 سال سے انگلینڈ میں مقیم ہے ، میں نے12-10 سال قبل اس کی شادی  انگلینڈ کی ایک مسلمان لڑکی سے کی، اللہ کی مرضی سے اس سے میرے بیٹے کی کوئی اولاد نہیں ہوئی جس کے باعث مجبورا مجھے پاکستان میں اس کی دوسری شادی کرنا پڑی، اس کی دوسری بیوی  سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوا جو کہ تقریبا پانچ اور ڈھائی سال کے ہیں،میرا بیٹا دسمبر 2021ء میں پاکستان ملنے آیا  تو اس کے بیٹے اور بیٹی کے کاغذات مکمل تھے جب کہ اس کی بیوی کے کاغذات نامکمل تھے جس کے باعث وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ نہ لے جاسکا اور میں اپنے بیٹے اور پوتے پوتی کیساتھ انگلینڈ آگئی، یہاں پر ہم چند دن مقیم رہے اور بچے ایڈجسٹ نہ ہوسکے اس لیے ہمیں پاکستان واپس آنا پڑا ۔ پاکستان واپسی پر میرے علم میں یہ بات آئی کہ میرا شوہر میری بہو کو چھیڑتا ہے اور شاید اس میں میری بہو کی بھی رضامندی شامل ہے،  تقریبا عرصہ 6ماہ ہوگیا تھا کہ دونوں زبانی کلامی فحش باتوں میں مصروف تھے، دونوں سے علیحدہ علیحدہ اور اکٹھے  بازپرس کرنے پر علم میں آیا کہ میرا شوہر میری بہو کو چومنے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور ایسا متعدد بار ہوا ہے کہ اس نے کسی حائل کے بغیراس کی چھاتی اور منہ وغیرہ کو چوما ہے، دونوں اس سے زیادہ کرنے کرانے سے انکاری ہیں، ہمبستری کے عمل سے بھی انکاری ہیں ، واللہ اعلم سچ کیا ہے، یہ سب میرے بیٹے کے علم میں نہیں ہے اور میں شدید ڈپریشن اور پریشانی میں مبتلا ہوں کہ اگر میں اپنے بیٹے کے علم میں لاؤں تو وہ ہم سب کو چھوڑ نہ دے کیونکہ وہ  بارہ پندرہ افراد کا واحد کفیل ہے، اپنے شوہر اور بہو کے متعلق کیا فیصلہ لوں؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، اگر بہو کو کسی صورت طلاق دی جاتی ہے تو بچوں کا مستقبل برباد ہوتا نظر آرہا ہے اور شاید قانونی لحاظ سے بھی بچے ماں کے پاس چلے جائیں جو کہ بچوں کی تربیت کے لئے درست نہ ہو۔ مزید یہ کہ ان تمام حقائق سے پردہ بھی میری بہو نے اٹھایا ہے، ان تمام باتوں سے بیشمار سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اس نے چند ماہ قبل  کیوں نہ بتایا؟ اب کیا معاملہ ہوا کہ وہ بتانے پر مجبور ہوگئی؟ کیونکہ بظاہر وہ ڈرنے اور دبنے والی نہیں ہے اور شدید بدسلوکی کرتی ہے،  میں بے حد پریشان ہوں، ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے  میں قرآن و سنت کے مطابق کوئی فیصلہ لینا چاہتی ہوں تاکہ اللہ  کو جوابدہ ہونے میں آسانی ہو، میں نے جو بھی بیان کیا ہے اسے امانت سمجھا جائے اور کسی کے علم میں نہ لایا جائے، ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں میری راہنمائی کی جائے کہ میرے بیٹے پر میری بہو حرام ہو چکی ہے یا نہیں؟ تاکہ میں بہتر فیصلہ کرسکوں جوکہ سب کے حق میں بہتر ہو۔

بیوی کا بیان: دارالافتا کے نمبر سے رابطہ کیا گیا تو سائلہ نے اپنی بہو سے بات کروائی، بہو نے یہ بیان دیا کہ تمام واقعات ایسے ہی ہیں جیسے سوال میں لکھے ہوئے ہیں، مجھے ساس کے بیان سے اتفاق ہے۔ (رابطہ کنندہ: محمد سلیمان)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں فقہ حنفی کے عام ضابطے کی رو سے   تو حرمت مصاہرت ثابت ہو گئی ہے اور  بیوی شوہر پر حرام ہو   گئی ہے،  البتہ موجودہ دور میں بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی شوہر پر حرام نہیں ہوئی اور بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے،اس کی تفصیل "فقہ اسلامی” مصنفہ ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب میں ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی گنجائش ہے۔

فتح القدیر (213/3)میں ہے:

وثبوت الحرمة بمسها مشروط بأن يصدقها أو يقع في أكبر رأيه صدقها. وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها: لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه. ثم رأيت عن أبي يوسف أنه ذكر في الأمالي ما يفيد ذلك، قال: امرأة قبلت ابنزوجها وقالت كان عن شهوة، إن كذبها الزوج لا يفرق بينهما، ولو صدقها وقعت الفرقة.

درمختار (121/5) میں ہے:

(وإن ادعت الشهوة) في تقبيله أو تقبيلها ابنه (وأنكرها الرجل فهو مصدق) لا هي (إلا أن يقوم إليها منتشرا) آلته (فيعانقها) لقرينة كذبه أو يأخذ ثديها (أو يركب معها) أو يمسها على الفرج أو يقبلها على الفم قاله الحدادي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved