- فتوی نمبر: 21-354
- تاریخ: 20 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
میرے شوہر کی چھوٹی سی کریانہ کی دکان ہے میرے سسرنمبر (جوا) لگاتے ہیں جس کا نمبر لگ جائے اس کا انعام نکلتا ہے تو یہ حرام ہے؟ان پیسوں سے انہوں نے میرے شوہر کو دوکان میں سامان ڈال کر دیا،اب وہ اپنا پورا ٹائم دکان پر لگا رہے ہیں دکان پر ان کی محنت بھی ہے، صبح چھ بجے جاتے ہیں اور رات کو دس بجے آتے ہیں۔
(1)دکان سے جو کمائی آ رہی ہے وہ حلال ہے یا حرام؟
میرے سسر 35 سال پہلے سعودیہ تھے پاکستان آ کر انہوں نے الماری، فریج وغیرہ کی اپنی دوکان بنائی، دکان کی جگہ اپنی خریدی تھی وہ انہوں نے کوئی دس سال پہلے سیل کی اس کا پیسہ تو حلال کا تھا بعد میں انہوں نے یہ نمبر والا کام شروع کیا اب ان کا گھر دوبارہ بنا ،کچھ پیسہ نمبر والا پیسہ تھا مطلب حرام کاتھا کچھ جو دکان سیل کی تھی وہ پیسہ تھا اس سے گھر بنا ۔
(2)سوال یہ ہے کہ ان کی وفات کےبعد ہمیں جو جائیداد میں سےحصہ ملے گا پتہ نہیں وہ حرام ہے یا حلال؟ ہمیں لینا چاہیے یا نہیں؟کچھ پیسہ ان کے اکاؤنٹ میں ہے ایک پلاٹ ہے ایک گھر ہے جہاں رہتے ہیں،اب سب مکس ہیں پتا نہیں کون سا حلال ہے اورکون سا حرام؟ ان سے پوچھیں تو وہ نہیں بتائیں گے،الٹا غصہ کریں گے، آجکل وہ بہت بیمار ہیں،اٹھ نہیں سکتے،بیٹھ نہیں سکتے،تو اس حالت میں ان سے ایسا کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے ۔ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے دکان سے ہمارا گزارا نہیں ہوتا کہیں بھی نوکری نہیں مل رہی، میں نے ایم ایس سی کی ہے،جس کی وجہ سےمجھےسکول کی نوکری ملتی ہے لیکن اس میں تنخواہ بہت کم ہے، ان کی گندم بھی جو ہم کھاتے ہیں وہ بھی نمبر والے پیسے سے آتی ہے،ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہےکہ ہم یہاں سے نکلیں۔
(3) شادی پر چار چوڑیاں تھیں میری سسرال کی طرف سے وہ بھی پتہ نہیں کون سے پیسوں کی ہیں ۔میں ان کا کیا کروں مجھے وہ پہننی چاہئیں یا نہیں؟آگے کبھی ان کو سیل کروں تو پیسےحلال کے ہونگے یا حرام کے؟میرا بیٹا دو سال کا ہے میں اس کو حلال کھلانا چاہتی ہوں، میرا شوہر میٹرک پاس ہے، ان کو بھی کہیں نوکری نہیں مل رہی کہ ہم یہاں سے نکلیں، جب تک یہاں رہیں گے حرام کھانا ہماری مجبوری ہے لیکن ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ہم کہیں اور جائیں،ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے سسر کی جو کمائی جوئے سے حاصل ہوئی ہے وہ تو حرام ہے لیکن جو چیزیں آپ کے سسر
نے ان جوئے کے پیسوں سے خریدی ہیں وہ بعض اہل علم کےنزدیک حلال ہیں اورمجبوری میں ان اہل علم کےقول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے، لہذا
1۔جو کمائی دکان سے آ رہی ہے وہ آپ کے لیے حلال ہے۔
2۔چونکہ جائداد حلال ہے اس لیے جو حصہ آپ کو ملے گا وہ آپ لے سکتی ہیں ۔
3۔وہ چوڑیاں بھی آپ استعمال کر سکتی ہیں۔
نوٹ :البتہ آ پ کے سسر کے ذمہ ہے کہ جتنی کمائی حرام کی حاصل کی اتنی رقم بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کردیں لہذا نرمی کے ساتھ ممکن ہو تو انہیں سمجھا ئیں اور ان کے لیے دعا بھی کریں ۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں سسر کی جو کمائی نمبر یعنی جوئے کے پیسوں سے حاصل ہوئی ہے وہ اگرچہ حرام ہے لیکن حرام کمائی سے جو چیز خریدی جائے اس کے پیسے اگرپہلے سے نہ دیے جائیں اور نہ ہی ان پیسوں کی طرف اشارہ کر کے وہ چیز خریدی جائے تو وہ چیز بعض اہل علم کے نزدیک خریدار کے لیے حلال ہوتی ہے اور اس میں حرمت نہیں آتی ہمارے عرف میں چونکہ عام طور سے پہلے پیسےدینے یا ان پیسوں کی طرف اشارہ کر کے کوئی چیز خریدنے کا رواج نہیں اس لیے مذکورہ صورت میں سسر نے جو چیزیں خریدی ہیں وہ حلال ہیں ۔
نوٹ:جب اللہ تعالی آپ کے شوہر کو وسعت عطاء فرمادے تواس وقت شوہر اپنااندازہ لگا کراتنے پیسے صدقہ کردے جتنے جوئے سے حاصل کیےگئے تھے۔
حاشية ابن عابدين (5/ 235)
توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم قال أبو نصر يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول وإليه ذهب الفقيه أبو الليث لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح وقال الكرخي في الوجه الأول والثاني لا يطيب وفي الثلاث الأخيرة يطيب وقال أبو بكر لا يطيب في الكل لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اه
وفي الولوالجية وقال بعضهم لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار لكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام ا هـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved