• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سکول کی گڈول کسی کو بیچنا

استفتاء

ایک چالوا سکول کا پرنسپل سکول میں ایک دوسرے شخص کو پارٹنر بناتاہے اس طریقے سے کہ اسکول کی مارکیٹ ویلیو مالیت 2لاکھ بنتی ہے اس کے  آدھے حصے کو 1لاکھ میں فروخت کرکے اسکول میں پارٹنر بناتا ہے کیا یہ جائز ہے ؟عدم جواز کی صورت میں متبادل صورت تحریر کریں؟

وضاحت مطلوب ہے کہ :

1۔چالوا سکول کی کیا کیا چیزیں پرنسپل کی ملکیت میں ہیں ،مثلا اسکول کی زمین کس کی ملکیت میں ہے ؟تعمیر کس کی ہے ؟ اسکول میں منقولی اشیاء مثلا فرنیچر وغیرہ کس کی ملکیت میں ہے؟

2۔ پرنسپل جس صاحب کو اپنا پارٹنر بنانا چاہتے ہیں اس کی اسکو ل میں کوئی ذمہ داری بھی ہو گی یا وہ صرف سرمایہ لگائے گا؟

3۔پارٹنر کا نفع ،نقصان کاتناسب کیا طے کیا گیا ہے ؟

4۔پارٹنر شپ کو ختم کرنے کی صورت میں ایک لاکھ روپیہ محفوظ ہو گا یا اس وقت جو اسکول کی ویلیو ہو گی اس کے حساب سے اسے رقم دی جائے گی؟غرض معاہدے کی پوری تفصیلات ذکر کریں تاکہ معاملے کی نوعیت کو سمجھنے میں  آسانی ہو۔

5۔کیا دونوں شریک رقم کو لازمی طور پر شامل کرنا چاہ رہے ہیں یا اگررقم کے بغیر شرکت ہو تو بھی دونوں راضی ہیں ؟

جواب وضاحت :

(4، 3 ، 2 ، 1)2لاکھ کی مالیت فرنیچر کی لگائی گئی ہے سکول کی جگہ پرنسپل کی ملکیت ہے،نائب پرنسپل کے طور پر پارٹنر کی بیوی دفتر میں بیٹھے گی ۔اس کو باقاعدہ تنخواہ نہیں ملے گی بلکہ  آدھا نفع ملے گا۔یہ ایک لاکھ ناقابل واپسی ہے شرکت ختم کرتے وقت اسکول گڈول اور فرنیچر کی جو مالیت ہو گی وہ  آدھی  آدھی تقسیم ہو گی۔(مزید وضاحت زبانی )یہ دو لاکھ اسکو ل کے فرنیچر اور گڈ ول کی ہے ۔

5۔رقم لازمی طور پر شامل کرنا چاہتے ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اسکول کی گڈول کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قابل فروخت ہو ،لہذا مذکورہ معاملہ کے جواز کی صورت یہ ہے کہ ا سکول کا مالک ایک لاکھ میں سارا فرنیچر یا  آدھا فرنیچر دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کردے اور پھر  آپس میں دونوں مل کرشرکت کریں کہ ہم دونوں یہ ذمہ داری قبول کرتے ہیں کہ اسکول چلائیں گے اوربچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں گے اور جو نفع ہو گا وہ  آپس میں  آدھا  آدھا تقسیم کریں گے ۔دوسرے شخص کی بیوی اس کے نائب کے طور پر کام کرے گی۔ اس صورت میں نقصان کام کی ذمہ داری کے حساب سے ہوگا یعنی معاہدہ کرتے ہوئے ذمہ داری کی جونسبت طے کریں گے مثلا  آدھی  آدھی ذمہ داری ہو گی تو نقصان  آدھا  آدھا ہو گا ۔اور جب شرکت ختم ہو گی تو فرنیچر پورا یا  آدھا (جس حساب سے فروخت کیا تھا )دوسرے شخص کا ہوگا۔

چنانچہ شرح مجلہ میں (314تا317)ہے :

مادة 1390: یقسم الشرکاء الربح بینهم علی الوجه الذی شرکوه یعنی ان شرطوا تقسیمه متساویا یقسموه متساویا وان شرطوا تقسیمه متفاضلا کالثلث والثلثین مثلا یسم حصتین وحصة.

مادة1392:الشریکان بضمان العمل یستحقان الاجرة فاذاعمل احد الشریکین وحده وال آخر لم یعمل کما لو مرض او ذهب الی محل  آخراو جلس بطالا فیقسم الربح ولاجرة بینهما علی الوجه الذی شرطاه.

مادة :اذا تلف او تعیب المستاجر فیه بصنع احد الشریکین فیکون ضامنا بالاشتراک مع الشریک ال آخر والمستاجر یضمن ماله ایا شاء منهما ویقسم هذا الخسار بین الشریکین علی مقدار الضمان مثلا اذا عقد ا الشرکة علی تقبل الاعمال وتعهدها مناصفة فیقسم الخسار ایضا مناصفة واذا عقدا الشرکة علی تقبل الاعمال وتعهدها ثلثین وثلثا یقسم الخسارایضا حصتین وحصة.

مادة 1396: اذا عقد اثنان شرکة الصنائع علی ان الدکان من احدهما ومن ال آخر العمل فیصح وقال الاتاسی تحته سواء شرطا العمل علیهما او علی صاحب الادوات والقیاس ان لا تصح فی الثانیة لان من احدهما العمل ومن ال آخر الحانوت واستحسن جوازها لان المشترک فیه فی شرکة التقبل انما هو العمل کما تقدم عن النهر…والتقبل من صاحب الحانوت عمل

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved