- فتوی نمبر: 30-173
- تاریخ: 21 دسمبر 2023
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں آپ حضرات اس مسئلہ میں کہ *** ایک اسکول میں تقریباً تیرہ مہینے سے اسلامیات کا ٹیچر ہے اور اب کچھ حالات اور سیلری کم ہونے کی بنا ء پر ***نےبار بار تقاضہ کرنے کے بعد استعفاء دے دیا اور *** کو اس عرصے میں چھٹیوں کی تنخواہ نہیں ملی جو جون جولائی میں ٹیچر کو دی جاتی ہیں۔*** نے چھٹیوں کے بعد دس دن کام بھی کیا ۔ اب استعفاء دینے کے بعد بندہ *** پرنسپل سے چھٹیوں کی تنخواہ اور موجود ہ مہینے کی تنخواہ کا مطالبہ کر رہا ہے اور پرنسپل کا کہنا ہے کہ آپ کا کوئی حق نہیں کیونکہ آپ استعفاء دینے کے بعد فوراً چلے گئے تھے۔ براہ کرم شرعی رو سے حکم بتائیں؟
وضاحت: پرنسپل کا موقف جانے بغیر جواب دینا ممکن نہیں۔
پرنسپل کا بیان:
*** صاحب ہمارے ہاں کام کرتے رہےاور ہم ان سے خوش تھے البتہ ہمارے درمیان میں اس بات پر اختلاف ہوا کہ انہوں نے چھٹیوں کے فوراً بعد استعفاء دے دیا جس کی وجہ سے اسکول کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور اسکولوں کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ استعفاء دینے سے ایک مہینہ قبل اطلاع کردی جائےاور ہمارے ہاں بھی یہی طریقہ رائج ہے البتہ ان کی چھٹیوں کی تنخواہ ہم ان کو دیں گے اور اس کی تاریخ ہم نے ان کو دے دی ہے البتہ ہمارے لیے بھی شرعی رہنمائی کردیں کہ کیا اسکول ایسی صورت میں تنخواہ دینے کا پابند ہے؟ہمارا اسکول 24 جولائی کو کھلا تھا اور ***صاحب نے 2 اگست کو استعفاء دیا اور تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ براہ راست نہیں کیا اور نہ ہی اس کا استعفاء نامہ میں ذکر کیا بلکہ وہاں استعفاء کی وجہ پوچھنے پر کہا کہ میں بتانے سے قاصر ہوں کیونکہ اس سے دل آزاری ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں *** چھٹیوں کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہے۔البتہ چھٹیوں کے بعد جتنے دن کام کیا ہے اتنے دنوں کی تنخواہ کا مستحق ہے۔
توجیہ: چھٹیاں کام کے دنوں کی تابع ہوتی ہیں اور چھٹیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آرام کرکے اس کے بعد تندہی سے کام کیا جاسکے لہذا چھٹیوں کی تنخواہ کا استحقاق اسی وقت ہوتا ہے جب چھٹیوں کے بعد بھی کام کیا جائے الا یہ کہ کسی خاص مجبوری کی وجہ سے استاد ملازمت چھوڑ دے جبکہ مذکورہ صورت میں ملازمت چھوڑنے کی کوئی خاص مجبوری نہیں تھی لہذا مذکورہ صورت میں استاد چھٹیوں کی تنخواہ کا مستحق نہیں ۔
امداد الاحكام (3/561)ميں ہے:
سوال:۔ در مدرسۃ از مدارس اسلامیہ مدرس قدیم یک سال از مہتمم صاحب اجازت گرفت ، بجائش دیگر معلم را جانشین جہت تعلیم کرد، چون مورخہ ۲۰؍شعبان امتحان سالانہ شد مہتمم بجانب مدرس جدید کہ سی روپیہ اجرت ماہ شعبان مرسول دوم اینکہ آئندہ سال را تو یقینًا امیدوار نباشی چرا کہ تو یک سال را مدرس بودی بجائے مدرسِ قدیم۔۔۔۔۔
الجواب قال فی الدر: وهل یاخذ ایام البطالة کعید ورمضان لم اره وینبغی الحاقه ببطالة القاضی واختلفوا فيها والاصح انه یأخذ لانها للاستراحة اشباه من قاعدة العادة محکمة اھ۔ (ج؍۳،ص؍۵۸۷، مع الشامی) اس سے معلوم ہوا کہ تعطیل کے زمانہ میں استحقاقِ تنخواہ کا سبب یہ ہے کہ استراحت کے لئے یہ تعطیل ہوتی ہے اور یہ علت اس شخص میں موجود ہوسکتی ہے جو تعطیل سے پہلے معزول نہ ہوا ہو، دوسرے شامی نے اس کا مبنی عرف پر کیا ہے جیسا کہ درمختار میں بھی اس کو قاعدۂ عادت سے نقل کیا ہے اور ہمارے یہاں عرف یہ ہے کہ ایامِ تعطیل کی تنخواہ کا مستحق وہی مدرس ہوتا ہے جو بعد تعطیل کے اپنے کام پر برقرار رہے اس کا متقضیٰ بھی یہی ہے کہ صورتِ مسئولہ میں یہ مدرس تنخواہِ رمضان کا مستحق نہیں، اور مہتمم کے قول میں سال سے اکثر حصہ سال کا مراد ہوسکتا ہے جس سے دخول رمضان لازم نہیں آتا، اگر مقام سوال کا عرف اس بارہ میں ہمارے عرف کے خلاف ہو تو سوال پھر کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved