• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سروسز کے کام میں مضاربت کا حکم

استفتاء

دس لاکھ دے کر معاہدہ کرنا کہ نفع نقصان آدھا آدھا ہوگا۔

فتوی نمبر 144207200001 کتاب      شرکت: باب     شرکت عقود: فصل    متفرق مسائل

سوال:میں اسلم کو  ‪1000000 رقم ٹینٹ کراکری کے کاروبار  کے لیے دےرہاہوں۔  اسلم کی محنت ہوگی  اور میرے پیسے ہوں گے۔نفع  و نقصان میں برابر شریک ہوں گے اور ٹینٹ، کراکری کرائے پر دیں گے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:مذکورہ صورت مضاربت کی ہے ،  سارے خرچے نکالنے کے بعد جو نفع بچے گا اس کو آدھا آدھا کرنا درست ہے،  تاہم نقصان میں تفصیل یہ ہے کہ اگر نقصان ہوگیا تواس کو پہلے حاصل شدہ نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر اس سے بڑھ گیا تو وہ رب المال  (انویسٹر) کے ذمے  ہوگا اور اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا، مضارب (ورکنگ پارٹنر) کی غلطی نہ ہو تو اس کو مالی نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں، بلکہ نقصان کی صورت میں سرمایہ کار نقصان برداشت کرے گا اور مضارب  (کا نقصان یہی ہے کہ اس ) کی محنت رائیگاں جائے گی،  مضارب امین کی حیثیت سے کام کرے گا۔ مضاربت کی تفصیل اس لنک میں ملاحظہ کریں :

مضاربت کی تعریف اور اس کی شرائط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ اعلم

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

مفتیان کرام اس سوال و جواب پر غور فرمائیں کیا یہ درست ہے اور کیا کسی کو پیسے دیں کہ وہ سامان خریدے اور پھر سامان آگے بیچے نہیں بلکہ اس کو کرائے پر دیا کرے کیا اس طرح  کا عقد بھی مضاربت کا عقد ہو سکتا ہے؟کیا مضاربت میں سامان لے کر آگے بیچنا شرط نہیں ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت  حنفیہ کے نزدیک تو جائز نہیں کیونکہ حنفیہ  کے نزدیک مضاربت  کی حقیقت یہی ہے کہ مضارب اس سرمایہ سے آگے تجارت (بیع ، شراء) کرے البتہ  حنابلہ کے نزدیک جائز ہے کیونکہ حنابلہ کے نزدیک  آگے مضارب  مضاربت کے سامان سے بطور اجرت کے بھی نفع کمائے اور وہ نفع آپس میں  فیصد کے حساب سے تقسیم ہو تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ  رب المال  اگر مضارب کو جانور دے کہ اس  پر سامان لادنے کے ذریعے کمائی کرے اور نفع دونوں میں تقسیم ہو تو یہ صورت جائز ہے آجکل چونکہ اس طرح کی صورتوں کا عام رواج ہے اس لیے حنابلہ کے قول کو لیا جاسکتا ہے۔

الجوهرة النيرة (3/ 130) میں ہے:المضاربة في اللغة مشتقة من الضرب في الأرض وهو السفر قال الله تعالى { وآخرون يضربون في الأرض يبتغون من فضل الله } أي يسافرون لطلب رزق الله ، وفي الشرع عبارة عن عقد بين اثنين يكون من أحدهما المال ومن الآخر التجارة فيه ويكون الربح بينهما .البحر الرائق (5/ 198) میں ہے:ولذا قال في المحيط دفع دابته إلى رجل يؤاجرها على أن الأجر بينهما فالشركة فاسدة والأجر لصاحب الدابة وللآخر أجر مثله وكذلك السفينة والبيت  ولو دفع دابته إلى رجل ليبيع عليها البر على أن الربح بينهما فالربح لصاحب البر ولصاحب الدابة أجر مثلها لأن منفعة الدابة لا تصح ( ( ( تصلح ) ) ) مالا للشركة كالعروضالدر المختار (4/ 326) میں ہے:كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله وكذلك السفينة والبيت ولو لیبیع عليها البر فالربح لرب البر وللآخر أجر مثل الدابة ولو لأحدهما بغل وللآخر بعير فالأجر بينهما على مثل أجر البغل والبعير نهرالمغني (5/ 116)میں ہے:وإن دفع رجل دابته إلى آخر ليعمل عليها وما يرزق الله بينهما نصفين أو أثلاثا أو كيفما شرطا صح نص عليه في رواية الأثرم ومحمد بن أبي حرب وأحمد بن سعيدالمغني (5/ 116)وقالوا : لو دفع شبكة إلى الصياد ليصيد بها السمك بينهما نصفين فالصيد كله للصياد ولصاحب الشبكة أجر مثلها وقياس ما نقل عن أحمد صحة الشركة وما رزق بينهما على ما شرطاه لأنها عين تنمي بالعمل فيها فصح دفعها ببعض نمائها كالأرضالمغني (5/ 120)فإن اشترك ثلاثة من أحدهم دابة ومن آخر راوية ومن الآخر العمل على أن ما رزق الله تعالى فهو بينهم صح في قياس قول أحمد فإنه قد نص في الدابة يدفعها إلى آخر يعمل عليها على أن لهما الأجرة على الصحة وهذا مثله لأنه دفع راويته إلى آخر يعمل عليها والراوية عين تنمي بالعمل عليها فهي كالبهيمة فعلى هذا يكون ما رزق الله بينهم على ما اتفقوا عليه

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved