• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شب برآت کے موقعوں پر پٹاخوں کے کاروبار کا حکم

استفتاء

(1)شب برآت کے موقع پر پٹاخوں کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟ (2) اس کاروبار سے حاصل ہونے والے پیسوں کا کیا حکم ہے؟ (3) اس کاروبار کے لیے ادھار دینا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ پٹاخوں کا کاروبار کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ بہت سے مفاسد کا سبب بنتا ہے مثلاً  بے جا مال خرچ کرنا،تکلیف دینا،وقت کا ضیاع، فضول  اور لغویات میں مشغول ہونا۔

2۔ ایسے کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع بھی  مفتی بہ قول کے مطابق جائز نہیں۔

توجیہ: مذکورہ مفاسد کی وجہ سے  پٹاخے  خود آلاتِ معصیت ہیں اور آلات ملاہی/ معصیت کی بیع صاحبین کے نزدیک جائز نہیں  اور علامہ شامی نے اسی پر فتوی دیا ہے۔البتہ امام صاحب کے نزدیک جائز  ہے لیکن مکروہ ہے اور اعانت  علی المعصیت کی وجہ سے کراہتِ  تحریمی بنتی ہے لہذا اس کا کاروبار بھی جائز نہ ہوگا  ۔

3۔ جب معلوم ہے کہ ادھار لینے والا  اس ادھار سے پٹاخوں  کا کاروبار  کرے گا تو گناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے  ایسے شخص کو ادھار دینا بھی جائز  نہیں۔

مشکوۃ المصابیح(رقم الحدیث: 3872) میں ہے:

عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول… ‌كل ‌شيء ‌يلهو به الرجل باطل….

بدائع الصنائع(5/144) میں ہے:

ويجوز بيع آلات الملاهي ‌من ‌البربط، والطبل، والمزمار، والدف، ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف، ومحمد: لا ينعقد بيع هذه الأشياء؛ لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق

فتاوی شامی(4/268) میں ہے:

(ويكره) تحريما (‌بيع ‌السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية

وفي الشامية: قوله: تحريما) بحث لصاحب البحر حيث قال: وظاهر كلامهم أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية ط

فتاوی شامی(6/211) میں ہے:

(وضمن بكسر معزف) بكسر الميم آلة اللهو ولو لكافر ابن كمال (قيمته) خشبا منحوتا (صالحا لغير اللهو و) ضمن القيمة لا المثل (بإراقة سكر ومنصف) سيجيء بيانه في الأشربة (وصح بيعها) كلها وقالا لا يضمن ولا يصح بيعها، وعليه الفتوى

فتاوی شامی(6/395) میں ہے:

كل لهو المسلم حرام

فتاوی شامی(6/ 350) میں ہے:

وماكان سببا لمحظور فهو محظور

فتاوی محمودیہ(16/135) میں ہے:

سوال: آتش بازی بنانے والے کی آمدنی کیسی ہے، کیا آتش بازی بنانا گناہ ہے؟

جواب: جی ہاں گناہ ہے، اس کی تجارت امام ابوحنیفہ ؒ  کے نزدیک مکروہ ہے۔

فتاوی محمودیہ(6/133)  میں ہے:

سوال: پتنگ کی ڈور کا کاروبار یعنی اس کی کمائی جائز ہے یا نہیں؟ آتش بازی کا کاروبار اور کمائی جائز ہے یا نہیں ؟

جواب: جو ڈور  صرف پتنگ کے کام آتی ہے کسی اور کام نہیں آتی تو اس کا روبار مکروہ ہے اور یہی حکم  آتش بازی کا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved