• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدیدغصے کی حالت میں طلاق

استفتاء

بیان حلفی(شوہر)

میں خدا کو حاضرناظر جان کر یہ بیان لکھتاہوں کہ میں اپنی محدود سوچ کے مطابق جو کچھ بھی لکھوں گا سچ لکھوں گا۔

مجھے بچپن ہی سے کچھ ذہنی اور نفسیاتی مسائل رہے ہیں۔ میراسب سے پہلا مسئلہ نویں جماعت 1988 میں شروع ہوا۔ مجھے ایسالگتاتھا جیسے میرے ہاتھ ناپاک ہوگئے ہیں اور میرا پوراجسم اور اردگر کا ماحول بھی ناپاک ہوگیاہے۔ پریشانی اور تکلیف اور بے بسی کے عالم میں میں رونا شروع کردیتاتھا، میرے والدین مجھے مختلف ڈاکٹروں اور پیروں قبروں کے پاس لے جاتے تھے، پیرفقیر کہتے تھے کہ میرے اوپر جنوں کا سایہ ہے اور ڈاکٹر کہتے تھے کہ مجھے کوئی Physical  پرابلم نہیں ہے۔ اور کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے، میرے ساتھ یہ مسئلہ کوئی سے تین سال جاری رہا اور اس دوران میں نے دو تین موقعوں پر اپنے آپ کو جان سے مارنے کی کوشش اور متعدد بار خواہش بھی کی۔ اب میں تھوڑاسابڑا ہوگیا اور 1990 میں ایک اور نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوگیا۔ اب کی بار میرا مسئلہ یہ تھاکہ لڑکے مجھے غلط نظروں سے دیکھتے ہیں۔ میں پھر بے بسی اور تکلیف کے عالم میں گرفتار ہوگیا۔ اوراس مسئلے میں کالج کے پرنسپل صاحب سے رابطہ کیا انہوں نے مجھے سمجھایاکہ کالج کے اندریہ نارمل باتیں ہوتی ہے۔ اور مجھے بھی نارمل لڑکوں کی طرح دوسروں کو مذاق کرنے چاہییں۔ لیکن میں بہرحال اپنے آپ کو اس مسئلے  سے نہ نکال پایا اور متعدد بار چھپ چھپ کر روتارہا۔ اردگرد کے لڑکے بھی میری اس کیفیت کو جان گئے  اور یہ مسئلہ کوئی سال 1995 تک جاری رہا۔اب میں 1997 میں یونیورسٹی میں داخل ہوگیا۔ یہاں پر میں ایک اور عجیب وغریب مسئلے میں پھنس گیا۔ میری ناک پرایک کالی دھاری بن گئی اور مجھے ایسا لگتاتھا کہ میں بہت بدصورت ہوگیاہوں، میں نے بہت سارے ڈاکٹروں اور سرجری کرنے والوں سے ملا۔ سرجری کرنے والے ایک ڈاکٹر نے مجھے سائیکالوجسٹ کے پاس جانے کے لیے کہا۔ اور میں نے سائیکالوجسٹ سے علاج کروانا شروع کروایا۔ سرجری کرنے والی ایک ڈاکٹر نے میرے دوستوں کی بلاکر کہا کہ اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور یہ اپنے آپ کو ختم کرسکتاہے، سو اس نے میرے دوستوں کو تاکید کی کہ وہ میرے ساتھ رہیں ، کہیں میں اپنے آپ کو مارنہ لوں، اس دوران اس نے مجھے اپنا نمبردیا۔ اور بولا کہ تم روزانہ میرے ساتھ بات کیا کرو۔

پھر انہی دنوں میں نے ایک عجیب کام کیا، کمرے میں کوئی بھی لڑکا نہیں تھا، میں نے ایک بلیڈ لیا اور اپنا بایاں ہات کاٹا وہ ہاتھ میں نے دو تین جگہ سے کاٹا، اور کمرے میں شیشے کے سامنے رکھا۔ جس پر شیشے کے اوپر خون کے بہت ساے چھنٹے پڑگئے اور کمرے میں بھی متعدد جگہ پر خون پھیل گیا۔ یہ بات 1998 کی ہے۔لڑکے جب کمرے میں آئے تو انہوں نے خون دیکھ کر  میرے ہاتھ کی مرہم پھٹی کی اور مجھے امام بری لے گئے ، میں اپنی ناک کی کالی دھاری کا مسلسل علاج کرواتارہا اور 2000 میں وہ ٹھیک ہوگئی۔ اور اس کے ٹھیک ہونے سے میں بھی نارمل ہوگیا۔

پھر میرے مسئلے 2003 میں دوبارہ شروع ہوگئے میری مختلف لڑکیوں سے دوستی تھی۔اور جب بھی میری کسی لڑکی کے ساتھ اختلاف یا ناراضگی ہوتی تو میں اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرتا۔ بلیڈ پکڑتا اور اپنا بازو کاٹنا شروع کردیتا، اور یہ کام  میں نے متعدد بارکوئی سات آٹھ دفعہ کیا۔ ایک دفعہ تو میں نے اپنا بایاں بازوشیشے پر دے مارا جس سے میری ایک بڑی وین کٹ گئی اور میں موت کے بالکل قریب پہنچ گیا،ڈاکٹرز نے میرے ساتھیوں سےکہا کہ اس نے خودکشی کی ہے۔ میں نے جھوٹ بولا کہ نہیں میں شیشے پر گرگیا تھا۔ بہر حال زیادہ تر لوگوں نے میری بات کا یقین نہ کیا اوریہ واقعہ کوئی 2004 میں ہوا۔ اوراس کے نشان میرے ہاتھ پر موجود ہیں۔ پھر اس سال مجھے پردورہ پڑااور میں نے اپنی سب سے قیمتی چیز(ڈگری) ٹکڑوں ٹکڑوں پر پھاڑدی۔

اب میں 2005 میں آجاتاہوں اور میری شادی ہوجاتی ہے۔ مجھے جب بھی غصہ آتاہے تو میں اپنے کپڑے پھاڑ دیتاتھا۔ اورمیں نےیہ کام متعددبار چار مرتبہ کیاہوگا۔ مجھ پربے بسی طاری ہوجاتی تھی ۔ پھر مجھے جب غصہ آتاتھا تومیں اپنے منہ پر چانٹے مارنا شروع کردیتاتھا اور کبھی جوتے بھی شایدجوتوں کا مجھے یقین نہیں پھراس کے بعد جب مجھے غصہ آتا ہے تو میرے اوپر بہت بے بسی چھاجاتی تھی۔ میں اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرتاتھاااور اپنے ہاتھ پاؤں کسی کپڑے سے باندھ لیتاتھا۔ اور اپنا سردیواروں اور فرش پر مارتاتھا ۔کپڑے بھی پھاڑدیتاتھا۔ اس دوران میری بیوی نے مجھے سائیکالوجسٹ سے ملنے کو کہا میں اس کی بات کورد کردیا۔

پھرا یک دفعہ میں سفر میں جارہاتھا۔ مجھے کسی بات پر اپنی بیوی پر غصہ آیا اور میں نے بے بسی میں گاڑی کو زور سے ریلوے سٹیشن کے پھاٹک سے دے مارا۔ گاڑی کا اگلا حصہ بہت بری طرح سے اندردھنس گیا۔ بہرحال مجھے کوئی نقصان نہ ہوا۔ میری بیوی تھوڑی دیر کے لیے بے ہوش ہوگئی۔

اب میں آخری واقعہ لکھتاہوں ، میں اپنے گاؤں میں تھا۔ کسی بات پر میری اپنی بیوی سے ناراضگی ہوئی۔ میں ناراضگی میں بولنا چھوڑدیتاتھا ہم لوگ واپس ایبٹ آباد آرہے تھے۔ اور میرے گھر کا فاصلہ کوئی دس گھنٹے کی مسافت ہے۔ میں نے پورے راستے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ اور کوئی دوبجے رات کے ایبٹ آباد پہنچا اور علیحدہ کمرے میں جاکر سوگیا۔ صبح جب میں اٹھا تو میں غصے اور بے بسی کی انتہا پہ تھا۔ میں نے اپنی بیوی سےکہا کہ آئندہ کے بعد اگر تم نے ایساکیاتو میں بہت براپیش آؤں گا۔ اوراس کو بالوں سے زور سے پکڑا۔ اس نے مجھے ہاتھ سے روکا۔ اس کا ہاتھ سے روکنا ہی تھاکہ میں پھٹ پڑا، میں نے اس کو مارنے کے لیے  اپنا جوتا اتارنے کی  کوشش کی مجھے سے جوتا نہیں اتررہاتھا۔ میں کچھ سکینڈ جوتے کو اتارنے کی کوشش کرتارہا پھر میں نے اس کا جوتا اتارنے کی کوشش کی، وہ بھی مجھ سے نہیں اتررہا۔ میرے جوتے کے تسمے لگے ہوئے تھے اور میں یہ بات بھول چکاتھا۔ پھر میں نے ایک  اورجوتے سے اس کو اندھادندھ مارناشروع کردیا۔ مارنے کے بعد میں بیٹھ گیا۔ اور اس نے مجھے کہا میں نے تمہارے ساتھ نہیں رہنا، میرا اللہ گواہ ہے کہ اس موقع پر میں ہوش وہواس کھوچکاتھا۔ اور میں نے اسے کہا” میں تمہیں طلاق دیتاہوں،طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں”۔ ان الفاظ کے اوپر میرا کوئی کنٹرول نہیں تھا میں بے بسی اور دیوانگی کی انتہاء پہ تھا۔ اور اس کے بعد میں نے اپنے منہ پر چانٹے مارنے شروع کر دیے۔

اگر میں بڑی سختی کے ساتھ اپنا احتساب کروں تو شاید اوپر والے پیرا میں لا ل لائن والے الفاظ پر میرا کنٹرول ہو۔ لیکن مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ نیلی لائن والے الفاظ کے وقت میں اپنا ہوش وہواس کھو چکاتھا۔

یہاں پر میں یہ بات بھی بتانا چاہتاہوں کہ اس سے پہلے اگر کبھی لڑائی ہوئی تھی تو میں اتنا کہہ کر چپ ہوجاتاکہ میں تمہیں۔۔۔لیکن اس دفعہ میرا اپنے اوپر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔

جب یہ واقعہ مکمل ہوگیا تو مجھے ایسالگا جیسے یہ آوازیں کوئی زور سے آرہی ہے اور میں نے یہ الفاظ ایک جنونی کیفیت میں کہے۔

ایک دوسری قابل ذکربات یہ ہے کہ عام لڑائیوں میں میں آفس سے آکر بات کرتاتھا۔ لیکن اس دفعہ میں اس انتہاء پر تھا کہ میں نے آفس جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا اور پھر باہر آکر یہ سارا واقعہ کیا۔ جو اس امر کی طرف اشارہ کرتاہے کہ میری وہ کیفیت نارمل نہیں تھی۔

مجھے یہ بات کہنے میں بھی ذرہ برابر شک نہیں کہ اگر میرااپنے اوپر کنٹرول ہوتاتو میں کبھی بھی یہ الفاظ تین بار نہ کہتا، کبھی بھی نہیں۔

ایک اور اہم بات ۔ میں نے طے کیا ہواتھاکہ میں اپنی بیوی کو Pregnancy  کی وجہ سے نہیں ماروں گا۔ لیکن اس کی بار میرا اپنے اوپر کنٹرول نہیں تھا۔ ویسے بھی میں اپنی  بیوی کو لڑائی میں مارتا نہیں تھا۔ لیکن اس دفعہ میرے مارنے میں بے حسی اور بے بسی تھی۔

میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ میرے اوپرا س وقت بھی بے اختیار گی کی وہی حالت تھی جو میرے اوپر ایک دفعہ گاڑی کو پول سے ٹکراتے وقت تھی اور جب میں نے اپنی وین کاٹی تھی اورجب میں بلیڈ سے اپنا بازو کاٹتاتھا۔

ایک اوراہم بات یہ واقعہ ہونے سے دو تین مہینے پہلے مجھے کچھ سائیکالوجیکل مسئلے شروع ہوگئے تھے،جن میں ایک اہم بات یہ ہے میں شاید یہ بات نہ لکھ سکوں لیکن اگر آپ اس کو ضروری سمجھیں میں  فون پر آپ کو بتادوں گا۔

اس پورے واقعہ میں میرے اوپر دیوانگی کی حد اس وقت کراس ہوگئی جب اس نے کہاکہ میں نے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ یہ ایک ایسی بات تھی کہ اگر یہ واقعہ نہ ہوتا تو میں نے ہفتوں اسے کہناتھا کہ تم نے میرے ساتھ یہ بات کرکے بہت زیادتی کی اور پھر اس نے مجھے کہناتھاکہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ اور میں  نے یہ الفاظ باربار سن کے اپنے آپ کو Reconcile  کرناتھا۔

ایک اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ میرابڑا بھائی پچھلے بارہ سال سے ذہنی مریض ہے۔ اورہم اس کا مسلسل علاج کروارہے ہیں وہ ابھی ٹھیک نہیں ہوا۔ شاید میڈیکل سائنس کی روسے مجھے یہ بات سپورٹ کرے۔

اگرمیں اپنی ذات کا تجزیہ کروں تو یہ نہیں کہ میں ہر وقت ابنارمل رہتاتھا۔ میں ایک نارمل زندگی گزارتا ہوں لیکن پریشانی، مسائل، غصے یا  اس طرح کے باقی جذبات میں میں ابنارمل ہوجاتاہوں۔

نوٹ: میں نے جتنی باراپنے آپ کو اور جسم کو مختلف اوزارسےکاٹااس کے نشان میرے جسم پر آج بھی موجود ہیں۔

بیوی کا بیان

میں ***  اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر (جوعرصہ میں نے*** کے ساتھ گزارہ ہے اس کے پیش نظر) اس بات کی تصدیق کرتی ہوں کہ ان کوSerious Psychological problems ہیں۔ جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔اس کیفیت  میں وہ اپنے آپ کو کمرے میں بند کردیتے تھے میں اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہوں کہ انہوں نےکئی دفعہ بلیڈ سے اپنے جسم پر زخم بھی بنائے، اپنے منہ پر چانٹے مارے، اپنے آپ  کو رسی سے باندھا، اس حالت میں انتہائی بےبس نظرآتی تھی اور سامنے نظر آتاتھا کہ اگر ایسی حالت میں ان کو غلط کہا جائے گا تو خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

9فروری2009 کو بھی ایسی ہی کیفیت میں یہ واقعہ پیش آیا۔ میں نے ان کو مارنے پر مزاحمت کی جس کی  وجہ سے وہ آپے سے باہر ہوگئے اور جب میں نے یہ کہا کہ آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی آپ مجھے طلاق دے دینا تو انہوں نے ایکدم سے کہا کہ تمہیں طلاق دیتاہوں  یہ بات تین دفعہ کہی گئی۔اس کیفیت میں ان کا جسم سخت ہوجاتا تھا اور  کی وجہ سے گردن بالکل اکڑجاتی تھی جس کی وجہ سے کئی دن تک گردن میں درد بھی رہتاتھا۔

۲۔پردے کے معاملے میں ان کارویہ بھی نارمل نہیں تھا ۔ مثلا ہماراگھر ایک سنسان جگہ پر تھا جہاں باہر سے اندر نظر آنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن پھر بھی دن  ہو یا رات کھڑکیوں کے پردے ہٹانے یا صحن میں جانے کی اجازت نہیں تھی، حتی کہ جس کمرے میں باہر سے اندرآوازیں آتی  ہوں ا س کمرے میں بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ دوران سفر بھی گاڑی میں میں باہر دائیں بائیں نہیں دیکھ سکتی تھی، حتے کہ بارہ گھنٹوں یا اس سے زیادہ کے سفر میں بھی مجھے اپنی نظر گاڑی کے اندر ہی رکھنی ہوتی تھی ، پھر بھی مجھ سے کئی بار پوچھا جاتاکہ تم باہر تو نہیں دیکھ رہی۔

۳۔*** کے دماغ میں اگر کوئی بات آجائے تو وہ بات آسانی سے نہیں نکل سکتی کئی دفعہ معاملات حل ہونے میں کئی کئی دن لگ جاتے۔ حالانکہ میں نے اعجاز کو کبھی بھی کسی بات پر غلط نہیں کہاچاہے وہ غلطی پر بھی ہوں۔

۴۔وہ ایک بات کو اپنی۔۔کے لیے کئی بار پوچھتے تھے اتنی بار کے میرے اعصاب تھک جاتے اور صبر سےکام لینا مشکل ہوجاتاپھر بھی مجھے تمیزکے دائرے میں رہ کربات کرنی ہوتی تھی۔ ورنہ حالات بہٹ بگڑجاتے تھے۔

۵۔وہ حالات کو کبھی بھیBalance  نہیں کرسکتے تھے یعنی اگر آفس کی tensions ہیں اس کا گھرپر اثر نہیں ہونا چاہیے اگر گھر کی tensions  ہیں تو اس کا جوب پراثر نہ ہو۔

میں نے ان سے Psychetist سے مشورہ کرنے کے لیے کہا لیکن انہوں نے بات نہیں مانی  میں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ میں اپنے طور پر Psychetist سے مشورہ  کروں لیکن چونکہ اس بات کی اجازت میرے شوہر کبھی بھی نہ دیتے اس وجہ سے میں نے اس سے چھپ کر ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

نوٹ: یہ الفاظ لڑکی کا بھائی لکھ رہا ہے میری بہن کچھ اور واقعات کی بھی تصدیق کرناچاہتی ہے جو وہ یہاں پر لکھنا بھول گئی ہے۔ اگر مفتی صاحب نے ضروری سمجھا تو میں فون پر لکھوادوں گا۔

( محمد طیب)

باعث تحریر

میں*** ول***نے آج مورخہ 2009۔02۔09 کو اپنی منکوحہ بیوی*** کو تین طلاق دے دی ہے اور میں نے یہ کام غصہ کی حالت میں کیاہے۔ تحریر لکھ دیتاہوں تاکہ سند رہے۔

بیوی کے گھروالوں کا بیان

مورخہ 9فروری 2009 تقریبا بوقت صبح آٹھ بجے میری بیٹی نے***سے مجھے ٹیلیفون کیاکہ فورا ***آئیں میں***سے***روانہ ہواتقریبا چا ر بجے شام وہاں پہنچا، میری بیٹی ***نے بتایا کہا کہ اعجاز نے مجھے طلاق دے دی ہے۔ میں نے***سے پوچھا آپ نے ایک طلاق دی اس نے کہا نہیں میں نے کہادو طلاق دیں  اس نے کہا نہیں۔ میں نے  اس سے کہاپھرآپ نے کیا کہا اس نے کہا میں تمہیں طلاق دیتاہوں طلاق دیتاہوں طلاق دیتاہوں، میں نے اس سے کہا جو کہتے ہو لکھ دو اس نے لکھ دیا البتہ اس فقرے کا اضافہ کیا کہ  میں نے یہ کام غصے میں کیاہے۔ میں لڑکی کو ہمراہ لیک*** آگیا۔ اگلے دن وہ اپنے بھائی اور ایک اور آدمی کو لیکر میرے پاس آئے جو میں نے کہا  اس پر قائم ہوں البتہ میں یہ بتانے آپ کو آیا ہوں کے ڈاکٹرذاکر نائیک صاحب اورڈاکٹراسرار صاحب کے مطابق طلاق واقعہ نہیں ہوئی۔

میں  نےیہ معاملہ علامہ ڈاکٹر مفتی محمدادریس صاحب پروفیسر جوحضرت ہزاروی کے نواسے ہیں کو پیش کیا مفتی صاحب نے انہیں سمجھایا طلاق ثلاثہ ہوچکی ہے۔ وہ مطمئن ہوکرچلے گئے۔ پھر کئی دنوں بعد انہوں نے اپنا موقف بدل دیا اور ایک تحریر لکھی جس سے اپنے آپ کو مجنون ظاہر کیا۔ جو لف ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عورت چونکہ اس سے متفق ہے کہ شوہر نے جس وقت اس کو طلاق دی اس وقت وہ غصہ کی ہذیانی کیفیت میں مبتلا تھا، اوراس سے دیوانگی کے افعال سرزد ہوئے تھے ، اس لیے طلاق واقع نہ ہوگی۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved