- فتوی نمبر: 33-337
- تاریخ: 02 اگست 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق
استفتاء
مجھ سے ایسے وقت میں طلاق کے الفاظ نکل گئے جب میں اپنے پورے شعور میں نہیں تھا۔شدید دباؤ کا شکار تھا۔ میرا ذہن اور اعصاب کام چھوڑ چکے تھے۔اور جو کچھ ہوا مجھے اس کا بڑا حصہ یاد بھی نہیں۔
میری ذہنی حالت کا پس منظر:
میری صحت عام انسانوں سے مختلف ہےجو کہ درج ذیل ہے:
1۔ اگر مجھے نیند پرسکون نہ ملے تو اگلے دن میری یاداشت ایسی رہتی ہے جیسے رات بھر سفر کیا ہو۔ میں کھویا کھویا رہتا ہوں اور ذہن مکمل حاضر نہیں رہتا۔اس دن مجھے ذہنی کاموں میں دشواری ہوتی ہے۔ایسے ہر دفعہ نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی زیادہ ہوتا ہے۔
2۔ مجھے عام آدمی کی نسبت بہت گرمی لگتی ہے۔ مسجد میں اگر سو آدمی موجود ہوں تو مجھے اپنے جیسا کوئی آدمی نظر نہیں آتا جس پرمجھ جتنا پسینہ ہو۔معمولی گرمی کی وجہ سے میرا ذہن اُوپر کی بیان کردہ علامات کی طرح غیر حاضر رہتا ہے۔ اعصاب میں افراتفری اور ہیجان رہتا ہے۔میرا پورا جسم اور پاؤں جلتے ہیں۔
3۔اچانک اندھیرہ ہو جائے۔ اور اس میں روشنی کیلئے ٹارچ رکھی ہو تو لائیٹ آنے تک میرے اعصاب نارمل نہیں ہوتے۔اور الجھن محسوس ہوتی ہے۔
4۔جب مجھے نزلہ ہوتو بھی مجھے وہی علامات ہوتی ہیں جو نیند کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ مجھے کندھوں اور سر پر پسینہ باقی دنوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اور کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے کوئی بخار میں بھاری گولیاں کھا لے۔اور اسکا ذہن اور سوچ میں ربط نہ ہو۔یہی کیفیت مجھے نزلہ اور ریشہ کی وجہ سے پچھلے کچھ دن سے لاحق ہے۔
جھگڑا کی تکرار کے وقت میں مذکورہ بالا تمام حالات کا شکار تھا۔ ایسی حالت میں نارمل اور ہلکے معاملات طے کر سکتا ہوں لیکن انتہائی اور بھاری فیصلے اور ذہنی دباؤ والے کام میں مجھے بہت دقت اُٹھانی پڑتی ہےاور جیسے جیسے دباؤ بڑھتا ہے ذہن غیر حاضر ہوتا جاتا ہے۔ تکرار کے وقت چاروں چیزیں مجھ پرغالب تھیں۔
میری بیوی میرے پاس آئی اور معمولی بحث سے آغاز ہوا۔ جو شدت اختیار کرتا گیا۔مسلسل دلائل اور سمجھانے کیلئے میری کافی قوت لگ رہی تھی۔ کمرے میں جزوی اندھیرا اور روشنی آجارہی تھی۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گرمی شدید تھی۔بحث کو دس منٹ گزرے ہوں گے کہ معاملہ شدت اختیار کرگیا میں نے بیوی سے کہا کہ “بس اب جو تم کہہ رہی ہو یہ کفر ہے” اس سے پہلے کہ میں کوئی سخت قدم اُٹھاؤں یا میرے منہ سے غلط الفاظ نکلیں یہاں سے چلی جاؤ۔ یہاں میری دھڑکن بہت تیز ہوگئی تھی۔ میرا جسم کانپ رہا تھا۔میرے لئے الفاظ کی ادائیگی مشکل ہو چکی تھی وہ اُٹھی اور چلی گئی۔
یہا ں سے آگے کیا ہوا کیسے ہوا مجھے کچھ یاد نہیں اس نے کیا الفاظ کہے مجھے یاد نہیں۔میں فورا اپنی جگہ سے اُٹھ کر اس کے پیچھے دروازے تک گیا۔اور کہا “تم مجھ پر طلاق ہو” تم یہی چاہتی تھی تو ہو گئی طلاق۔وہ حیران دروازے میں کھڑی دیکھتی رہی۔ دُور گھر کی خواتین کھڑی تھیں۔ میں نے ان کو کہا کہ “میں نے اسے طلاق دے دی ہے” اور متعدد بار طلاق کہا۔میرے لئے کھڑا ہونا ممکن نہ تھا میں گرنے کے قریب تھا ۔لہذا فوری پانی پیا اور بیٹھ گیا۔ پھر سارے گھر والے جمع ہو گئے۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا جب انسان مکمل ہوش وحواس میں نہ ہو۔ذہن مکمل حاضر نہ ہو۔ اور دھڑکن نارمل نہ ہو تو کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے؟فی الحال ہم نے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور گھر الگ کردیا ہے۔ فتوے کے جواب کے بعد مجھے فیصلہ کرنا ہوگا۔چونکہ میں پہلے دو طلاق دے چکا ہوں لہذا میرا سوال صرف اس آخری طلاق کے متعلق ہے اگرآپ کی طرف سے ضرورت ہوئی تو پہلی طلاق کی تفصیل بھی بھیج دوں گا۔ طلاق واقع ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں وہ ہمارے الگ گھر میں چار بچوں کیساتھ رہے گی۔ لیکن اگر طلاق واقع نہیں ہوتی تو میرے لئے پردے کا مسئلہ نہیں ہوگا۔
تنقیح از شوہر: “تم مجھ پر طلاق ہو” کے الفاظ میں نے کئی دفعہ کہے تھے، صحیح تعداد تو یاد نہیں لیکن دو مرتبہ سے زیادہ کہے ہیں۔
نوٹ: بیوی سے بات ہوئی تو اس نے مذکورہ صورتحال کی تصدیق کی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو چکی ہے چونکہ شوہر پہلے بھی بیوی کو دو طلاقیں دے چکا ہے لہذا مذکورہ طلاق سے تیسری طلاق واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے غصے کی حالت میں طلاق دی ہے لیکن غصے کی حالت ایسی نہ تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے اور نہ ہی غصے کی وجہ سے اس سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل سرزد ہوا ہے اور غصے کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت میں بھی طلاق واقع ہو چکی ہے۔
رد المحتار(4/439) میں ہے:
وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه…………. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح
بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved