• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے کی حالت میں طلاق دینا

استفتاء

میں *** حلفاً اللہ کو حاضر ناظر جان کر بیان کرتا ہوں کہ

1۔ 2011ء میں میں نے اپنی بیوی سے لڑائی کے دوران کہا "نکاح سے فارغ ہو”، اس وقت طلاق کی نیت نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے میکے چلی گئی، وہاں سے لے کر جامعہ اشرفیہ آئے تو انہوں نے ہمارا نیا نکاح کرایا گواہوں کی موجودگی میں۔

2۔ اس کے ایک سال بعد دوران حمل لڑائی کے دوران کہا "جا پھر تجھے طلاق ہے”، اس کے بعد بھی جامعہ اشرفیہ والوں نے ہمارا ایجاب و قبول کروا دیا تھا۔

3۔ پھر 6 اگست 2014ء میں آج سے تقریباً ساڑھے آٹھ ماہ قبل نصف شب کے قریب ہمارے کچھ گھریلو مسائل وغیرہ کی وجہ سے آپس میں لڑائی ہوئی، لڑائی کے دوران میں نے اپنی اہلیہ کو بری طرح مارا، ایک بلا پڑا تھا، اس سے مارا اور ماسکیٹو کلر راکٹ تھا جس سے مارا تھا جو ٹوٹ گیا تھا، اس دوران جب میں شدید غصے میں تھا تو میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے"طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے "۔

یہ الفاظ بولتے وقت مجھے ہوش نہیں تھا، کہ میں کیا بول رہا ہوں، اس کے تھوڑی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا بول دیا ہے۔

اس واقعے سے قبل میں کالام سے آیا تھا، دو دن سے سویا نہیں تھا، اس واقعے سے تین چار گھنٹے قبل چرس بھر سیگریٹ پیا تھا، جس کے اثرات نہیں تھے۔

اس موقعہ پر میں نے بیوی کو یہ کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا، مار کی وجہ سے جسم پر نیل بن گئے تھے، اس وقت میں بیوی کا گلہ دبانے لگا تھا لیکن اس نے مجھے بیڈ سے نیچے گرا دیا۔ وہاں ایک ٹیبل اور چیرز تھیں اور کچھ کاغذات تھے وہ بھی اٹھا کر پھینکے تھے۔

اس معاملہ کے چار دن بعد جب رشتہ داروں وغیرہ میں اکٹھے ہوئے تو اہلیہ نے کہا کہ مجھے دو دفعہ یاد ہے، میں نے کہا  نہیں تین دفعہ یاد پڑتا ہے۔

نوٹ: بیوی کا بیان بھی یہی ہے۔

وضاحت وضاحت مطلوب ہے: کہ ٹیبل، چیرز وغیرہ  کہاں پھینکے تھےاور کسی پر پھینکے تھے؟

جواب: ادھر ادھر پھینکے تھے، کسی کو مارے نہیں تھے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ  صورت میں اگرچہ شوہر کا یہ دعویٰ ہے کہ "یہ الفاظ بولتے وقت مجھے ہوش نہیں تھا” لیکن ساتھ ہی  اس کو یہ بھی پتہ ہے کہ میں نے یہ الفاظ تین دفعہ کہے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے علم تو تھا، البتہ اس کا ارادہ نہیں تھا، اور غصہ بھی اتنا شدید تھا کہ جس کی وجہ سے اس سے خلافِ عادت افعال صادر ہوئے، چنانچہ اس نے غصہ میں ٹیبل، چیرز، کاغذات وغیرہ اٹھا کر ادھر ادھر پھینکے۔

اور علامہ شامی رحمہ اللہ کے بقول ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته …. فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها. (4/ 439)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved