• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شادی کا مقصداور جماع کا حق

استفتاء

شادی کا اصل مقصد کیا ہے؟اللہ تعالی قرآن میں فرماتے ہیں کی میاں بیوی ایک دوسرے سے سکون حاصل کریں تو کیا سکون کا مطلب صرف ازدواجی تعلق قائم کرنا ہے؟ اگر بیوی تھکاوٹ کی وجہ سے کسی دن جلدی سوجائے اور صحبت نہ کرسکے تو کیا ایسی عورت پر بھی فرشتے لعنت کرتے ہیں؟ ہفتے میں دو بار جماع کرلینے کے بعد اگر شوہر کا کسی دن صحبت کو دل کرے مگر بیوی کی طبیعت ٹھیک نہ ہو جس کی وجہ سے اسکا ہمبستری کے لیے دل نہ کر رہا ہو تو  کیا شوہر اس بات پر بیوی سے ناراض ہوسکتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شادی کا اصل مقصد دو باتیں ہیں  :

(1) نسل انسانی کا بقا   (2) جنسی شہوت کی فطری طریقے سے تسکین۔

باقی ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنا بھی ایک مقصد ہے اور رہی فرشتوں کے لعنت کرنے والی بات تو یہ تب ہے جب بغیر کسی عذر کے عورت انکار کرے اور بغیر عذر کے انکار کرنے کی صورت میں شوہر ناراض بھی ہوسکتا ہے۔

بخاری شریف(رقم الحدیث:2998) میں ہے:

” عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبانا عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح "

(حضرت  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک سارے فرشتےاس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں)۔

مسلم شریف (رقم الدیث:1736) میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها فتأبي عليه إلا كان الذي في السماء ساخطا عليها حتى يرضى عنها”

( حضرت  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے)۔

ترمذی (رقم الحدیث:1080) میں ہے:

"عن طلق بن علي قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور”

(حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی مرد اپنی بیوی کو  اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگر چہ تنور پر روٹی بنارہی ہو)۔

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار(3/203) میں ہے:

‌ولو ‌تضررت من كثرة جماعه لم تجز الزيادة على قدر طاقتها…..ينبغي ان يسألها القاضي عما تطيق ويكون القول لها بيمينها لانه لا يعلم الا منها

حاشیہ ابن عابدین مع الدر المختار (3/204) میں ہے:

لا يحل له وطؤها بما يؤدي الي اضرارها فيقتصر علي ما تطيق منه عددا بنظر القاضي أو أخبار النساء وان لم يعلم بذلك فبقولها….

بدائع الصنائع (2/665) میں ہے:

وللزوج أن يطالبها بالوطء متى شاء إلا عند اعتراض أسباب مانعة من الوطء كالحيض والنفاس والظهار والإحرام وغير ذلك

موافقات للشاطبی (3/139) میں ہے:

أن للشارع في شرع الأحكام العادية والعبادية مقاصد أصلية ومقاصد تابعة..مثال ذلك النكاح؛ فإنه مشروع للتناسل على المقصد الأول، ويليه طلب السكن والازدواج، والتعاون على المصالح الدنيوية والأخروية؛ من الاستمتاع بالحلال، والنظر إلى ما خلق الله من المحاسن في النساء، والتجمل بمال المرأة، أو قيامها عليه وعلى أولاده منها أو من غيرها أو إخوته، والتحفظ من الوقوع في المحظور من شهوة الفرج ونظر العين، والازدياد من الشكر بمزيد النعم من الله على العبد، وما أشبه ذلك فجميع هذا مقصود للشارع من شرع النكاح؛ فمنه منصوص عليه أو مشار إليه، ومنه ما علم بدليل آخر ومسلك استقرئ من ذلك المنصوص..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved