• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شادی سے پہلے داڑھی میں سفید بال آنے کی صورت میں سیاہ خضاب لگانے کا حکم

استفتاء

اگر ایک نوجوان آدمی کے شادی سے پہلے ہی  داڑھی میں سفید بال آگئے ہوں تو  کیا اس کو کالا خضاب لگانے کی اجازت ہے ؟

مولانا الیاس گھمن صاحب نے کہا ہے کہ اگر شادی سے  پہلے نوجوان کی داڑھی میں سفید بال آگئے ہوں تو اس کو کالا خضاب لگانے کی اجازت ہے ۔اور مولانا سعید احمد صاحب پالنپوری نے فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالا خضاب لگانے سے منع کیا ۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کالا خضاب کیا اس سے معلوم ہوتا ہے  کہ دونوں احادیث آپس میں ٹکرا رہی ہیں اور جب احادیث میں ٹکڑاؤ ہو جائے تو حکم میں تخفیف آجاتی ہے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی کے بال اگر   اس عمر سے قبل ہی  سفید ہو جائیں جس عمر میں عموماً بال سفید ہوتے ہیں  تو اس کے لیے سیاہ خضاب کے استعمال کی گنجائش ہے ۔ کیونکہ قبل از وقت بالوں کا سفید ہونا عیب ہے چنانچہ اس صورت میں سیاہ  خضاب  زینت کے لیے یا  دھوکہ دینے کے لیے  نہ ہوگا بلکہ ازالہ عیب کے لیے ہوگا  ۔اسی طرح مجاہد کو بھی سیاہ خضاب لگانے کی اجازت ہے جبکہ دشمن پر رعب اور دبدبہ ڈالنا مقصود ہو ۔اس کے علاوہ سیاہ خضاب لگانے کی اجازت نہیں ہے ۔ رہی وہ بعض روایات جن میں سیاہ خضاب کا تذکرہ ملتا ہے اولا ً تو  ان روایات میں سیاہ سے مراد خالص سیاہ نہیں ہے بلکہ وہ سیاہ مراد ہے جو سرخی مائل ہو یا جہاد میں لگانا مراد ہے اور ثانیاً وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں لہٰذا حدیثوں میں ٹکراؤ سمجھنا درست نہیں ہے اور اس کی بنیاد پر حکم میں تخفیف سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔

شامی  (6/ 422)میں ہے :

(قوله ويكره بالسواد) أي ‌لغير ‌الحرب.

قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو، ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه، وعليه عامة المشايخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها

تکملہ فتح الملہم (4/149)میں ہے :

وتفصيل الكلام في ذلك أن الخضاب بالسواد يختلف حكمه باختلاف الأغراض على الشكل التالي:الأول: يكون الخضاب بالسواد للغزاة …..والثاني:أن يفعله الرجل للغش والخداع وليرى نفسه شابا وليس بشاب فهذا ممنوع بالاتفاق لاتفاق العلماء علي تحريم الغش والخداع .

امداد الاحکام (4/373)میں ہے :

سوال:۔ قابلِ گزارش یہ ہے کہ ایک عالم صاحب نے ایک حدیث لکھ کر روانہ فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ میری امت میں سے وہ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے اور ان کو جنت کی خوشبو نصیب نہ ہوگی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ خضاب لگانا بالکل مطابق گناہ شرک ہے، کیونکہ جنت مشرک کے لئے حرام ہے ، اب رہا یہ کہ کتاب در مختار میں ۲۳۲ باب الخضاب میں صاف لکھا ہوا ہے کہ سیاہ خضاب زینت کے لئے لگانا جائز ہے۔ علاوہ اس کے بعض لوگوں کے ہاں مکروہ لکھا ہے اور بعض کے ہاں مطلق مکروہ نہیں ۔ اکثر علماء سے سیاہ خضاب لگانے والے کی نسبت دریافت کیا وہ فرماتے ہیں کہ ایسی حدیث کوئی نظر سے نہیں گزری۔ اور اگر ہے بھی تو وہ ضعیف حدیث ہے اس لئے حضرت والا کے پاس یہ عریضہ روانہ کرکے جواب کا امید وار ہوں۔ سوال صرف سیاہ خضاب کے بارے میں ہے۔

جواب: أخرج النسائی فی سننه: أخبرنا عبدالرحمن بن عبیدالله الحلبي عن عبدالله وهو ابن عمرو عن عبدالکریم عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رفعه أنه قال قوم یخضبون بهذا السواد آخرالزمان کحواصل الحمام لایريحون رائحة الجنة. و قد أخرج بعده حدیث ابی قحافة أنه صلی الله عليه وسلم قال فيه غیروا هذا بشئ وجنبوه السواد رواہ الجماعة الاَّ البخاری والترمذی وهو حدیث صحیح۔ پس یہ حدیث توضیح ہے کہ سیاہ خضاب سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض لوگ آخر زمانہ میں سیاہ خضاب لگائیں گے ان کو جنت کی خوشبو نہ پہنچے گی اور فتویٰ اسی پر ہے کہ سیاہ خضاب جائز نہیں مگر یہ کہ جہاد میں دشمن کو مرعوب کرنے کے لئے لگانا جائز ہے۔ قال فی العالمگیرية أمّا الخضاب بالسواد فمن فعل ذالک من الغزاة لیکون أهيب فی عین العدو فهو محمود منه اتفق عليه المشائخ  ومن فعل ذالک لیزین نفسه للنساء و لیحبب نفسه اليهن مکروه (ای کراهة التحریم للاطلاق) وعليه عامة المشائخ:(ج؍۶،ص؍۲۳۸) اور امام ابویوسف ؒ سے اس میں جو رخصت مروی ہے۔ جیسا کہ عالمگیری وشامی میں مذکور ہے۔ وہ روایت ضعیف ہے یا مؤول ہے اس خاص صورت کے ساتھ جبکہ کسی کے بال بوجہ مرض قبل ازوقت سپید ہوجائیں۔

سنن ابو داؤد (رقم الحدیث : 4212) میں ہے:

عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد ‌كحواصل الحمام، لا يريحون رائحة الجنة.

ترجمہ: حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے ارشادفرمایا: آخری زمانہ میں  کچھ لوگ ہوں گے جو سیاہ خضاب لگائیں گے جیسے کبوتر کا سینہ ان لوگوں  کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی ۔

سنن ابی داؤد (رقم الحدیث:4204) میں ہے:

عن جابر رضی اﷲ عنه قال أتی النبی صلی اﷲ عليه وسلم بابی قحافة یوم الفتح ورأسه ولحیته کالثغامة بیاضاً فقال النبی صلی اﷲ عليه وسلم غیروا هذا بشئی واجتنبوا السواد.

ترجمہ:حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں  کہ فتح  مکہ کے دن ابو قحافہ رضی اﷲ عنہ کو حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں  لایا گیا ان کے سر اور داڑھی کے بال ثغامہ کے مانند بالکل سفید تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سفیدی کو کسی چیز سے بدل دو اور سیاہ خضاب سے احتراز کرو

سنن ابن ماجہ (رقم الحدیث : 3625)میں ہے:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إن ‌أحسن ‌ما ‌اختضبتم به لهذا السواد، أرغب لنسائكم فيكم، وأهيب لكم في صدور عدوكم

حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ(2/ 382) میں ہے:

وهذا الحديث معارض لحديث النهي عن السواد وهو أقوى إسنادا، وأيضا النهي يقدم عند المعارضة

التعليق الممجد على موطأ محمد (3/ 463) میں ہے:

«وأما الخضاب بالسواد الخالص فغير جائز لما أخرجه أبو داود  والنسائي وابن حبان، والحاكم وقال: صحيح الإِسناد عن ابن عباس مرفوعاً: يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام (دانه دان سينهائى كبوتران بالفارسية) ، لا يريحون رائحة الجنة. وجنح ابن الجوزي في “العلل المتناهية” إلى تضعيفه مستنداً بما رُوي أن سعداً والحسين بن عليّ كانا يخضبان بالسواد، وليس بجيد فلعله لم يبلغهما الحديث، والكلام في بعض رواته ليس بحيث يُخرجه عن حيز الاحتجاج به، ومن ثمَّ عدّ ابن حجر المكي في “الزواجر” الخضاب بالسواد من الكبائر ويؤيده ما أخرجه الطبراني عن أبي الدرداء مرفوعاً: من خضب بالسواد سودّ الله وجهه يوم القيامة، وعند أحمد: وغيِّروا الشيب ولا تقربوا السواد. وأما ما في “سنن ابن ماجه” مرفوعاً: إن أحسن ما اختضبتم به هذا السواد أرغب لنسائكم وأهيب لكم في صدور أعدائكم، ففي سنده ضعفاء فلا يُعارِض الروايات الصحيحة،

تکملہ حاشیہ ابن عابدین   (7/ 347) میں ہے:

«قال النووي: ومذهبنا استحباب خضاب الشيب للرجل والمرأة بصفرة أو حمرة، وتحريم خضابه بالسواد على الاصح لقول عليه الصلاة والسلام: غيروا هذا الشيب واجتنبوا السواد.قال الحموي: وهذا في حق غير الغزاة، ولا يحرم في حقهم للإرهاب، ولعله محمل من فعل ذلك من الصحابة

امداد الفتاوی (4/216)میں ہے:

…………………. قائلین بالجوازکی کوئی دلیل قوی نہیں ، ان کے ادلّہ سب مخدوش ہیں ، راویۃً بھی اور درایۃً بھی …………

پس جس روایت میں سواد وارد ہے جیسا نمبر: ۲میں گذرا وہ مؤول ہے مشابہت سواد سے  ……. خلاصہ یہ کہ حرمت کی ادلّہ قوی ہیں ‘ اور جواز کی کوئی دلیل قوی نہیں ؛ اس لئے عامّۂ علماء کا فتوی اس کی حرمت پر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved