• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شادی سے پہلے، ہونے والی ساس کو شہوت سے چھونا

استفتاء

میری شادی میرے تایا ابو کے گھر میں ہوئی ۔ ہمارا مشترکہ خاندانی نظام تھا اور گھر وغیرہ سب کچھ مشترکہ تھا۔میری ساس جو میری تائی بھی ہیں شادی سے پہلے میں ان کے ساتھ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا تو میرے کچھ اعضاء ان کے اعضاء سے لگے یعنی ران ران سے لگی اور پاؤں پاؤں سے، درمیان میں معمول کے کپڑے تھے اور گرمائش بھی محسوس ہورہی تھی اور مجھے شہوت بھی تھی ان کو شہوت تھی یا نہیں؟ اس کی مجھے خبر نہیں ،بعض دفعہ انزال ہوا اور بعض دفعہ نہیں ہوا اس کے علاوہ بھی ہاتھ، ہاتھ سے بھی لگا اور اس وقت شہوت بھی تھی ۔ اور ایسا بھی ہوا کہ وہ میرا سر صاف کر رہی تھیں مجھے شہوت پیدا ہوئی ۔میرا خیال ہے  کہ میری ساس اس معاملے سے بالکل بے خبر ہے ۔ابھی میرا کسی معاملے کی وجہ سے بیوی وغیرہ سے  جھگڑا بھی چل رہا ہے لیکن مجھے یہ باتیں بھی یاد آرہی ہیں ۔ کیا کوئی گنجائش نکل سکتی ہے ؟ اصل میں ہماری زمینیں وغیرہ سب ایک ساتھ ہیں اور معاملے بھی اکٹھے ہیں اگر یہ معاملہ بھی ظاہر ہو گیا تو فساد ہو جائے گا ۔ میرے والد بھی اپنے علاقے کے دینی اعتبار سے بڑے ہیں ۔ براہ کرم راہنمائی فرمائیں میرا اور میری بیوی کا نکاح درست تھا یا نہیں ؟ میں اس وقت ملک سے باہر ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب آپ نے شادی سے پہلے اپنی تائی کو شہوت سے چھوا  تھا تو  اسی وقت تائی کی بیٹی آپ پر حرام ہوچکی تھی اور بعد میں جو نکاح کیا گیا وہ ناجائز اور فاسد ہوا تھا لہٰذا آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس نکاح کو فسخ کرکے فورا بیوی کو علیحدہ کردیں۔

نکاح فسخ کرنے کے لیےآپ  بیوی کو زبان سے کہہ دیں کہ میں نے تمہیں چھوڑدیا، یا طلاق دے دیں۔

شامی(4/107) میں ہے:

وحرم أيضا بالصهرية اصل مزنية أراد بالزنى الوطئ الحرام واصل ممسوسته بشهوة أى ولو من أحدهما ………. وفروعهن مطلقا يرجع إلى الاصول والفروع أى وان علون وان سفلن

وفيه أيضا: لا فرق بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان وخطأ وإكراه

وفيه أيضا: والعبرة للشهوة عند اللمس والنظر لابعدهما وحدها فيها تحرك آلته أو زيادته به يفتى.

امداد الاحکام (2/267) میں ہے:

’’سوال: کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین صورت مسئولہ میں کہ آٹھ سالہ نابالغہ لڑکی کا نکاح اس کے والد کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی والدہ نے ایسی صورت میں کہ ایک شخص سے اس کا ناجائز تعلق ہوگیا تھا اسی سے اپنی لڑکی کا نکاح کردیا، لڑکی اب معمرہ ۱۵ سالہ ہے ۔۔۔۔۔ از روئے شرع شریف لڑکی خاوند کے نکاح میں رہ سکتی ہے یا نہیں، نیز خاوند سے اسے طلاق لینے کی ضرورت ہے یا بغیر طلاق خاوند سے جدا ہوگئی؟

الجواب: جب لڑکی کی ماں کا ناجائز تعلق اپنے داماد سے قبل نکاحِ بنت ہوچکا ہے تو اس صورت میں لڑکی کا نکاح اس شخص سے صحیح نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب نکاح صحیح نہ ہوا تو لڑکی کو شوہر سے طلاق لینے کی ضرورت نہیں بلکہ چند آدمیوں کے سامنے اسے اتنا کہہ دینا چاہئے کہ میں اپنے نکاح کو جو فلاں شخص سے ہوا تھا فسخ کرتی ہوں اور بہتر یہ ہے کہ شوہر کے سامنے بھی یہ بات کہہ دے گو ضرورت نہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔

قال في الخلاصة ……. والمتاركة في النكاح الفاسد بعد الدخول لا يكون إلا بالقول تركتك أو خليت سبيلك إلى أن قال وفي الحيط لكل واحد فسخ هذا العقد بغير محضر من صاحبه قبل الدخول وبعد الدخول ليس لكل واحد حق الفسخ الا بحضرة صاحبه كالبيع الفاسد وعند بعض المشائخ لكل واحد حق الفسخ بعد الدخول وقبله….. الخ (ج2، ص41)‘‘

در مختار مع رد المحتار (4/267) میں ہے:

( و ) يثبت (لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه ودخل بها أو لا) في الأصح خروجا عن المعصية

قال في رد المحتار [4/269]: والطلاق فيه متاركة لكن لا ينقص به عدد الطلاق

فقہ اسلامی(ص:34) میں ہے:

 کسی مرد نے کسی اجنبی سے زنا کیا تو اب اس مرد کا اس عورت کی ماں سے اور اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرنا درست نہیں رہتا اور یہی حکم اس وقت ہے جب مرد نے زنا تو نہیں کیا لیکن  شہوت سے عورت کے جسم پر ہاتھ پھیرا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved