- فتوی نمبر: 20-370
- تاریخ: 27 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
شہید شدہ قرآن کریم کے اوراق کو جلاسکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بہترطریقہ یہ ہے کہ قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کرکسی محفوظ جگہ میں دفن کردیا جائے جہاں لوگوں کا اوپر گزر نہ ہویا ان اوراق کےساتھ کوئی وزنی چیز مثلاً اینٹ باندھ کرکسی ایسے پانی میں ڈال دیا جائے جوپاک صاف ہو اور گہرا ہوتاکہ یہ اوراق پانی کی تہہ میں بیٹھ جائیں ۔اگر یہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں تو مجبوری کے درجہ میں قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق کو بے ادبی سے بچانے کی نیت سے جلانا بھی جائز ہےلیکن اس صورت میں راکھ کو کسی کیاری یاپاک جگہ میں ڈالیں اوراس چیز کا خیال رکھیں کہ یہ عمل لوگوں کے سامنے نہ ہو تا کہ اس عمل سے کسی اورکے لیےراستہ نہ کھلے اورغلط فہمی کی وجہ سے کسی ناخوشگوار صورتحال کاسامنا نہ کرنا پڑے۔
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن،حدیث نمبر 4987 میں ہے:
"وامر (عثمان رضي الله عنه )بماسواه من القرآن في کل صحيفة او مصحف ان يحرق”
فتاوی عالمگیری، کتاب الکراھیہ، باب الخامس (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر9 صفحہ نمبر 113) میں ہے:
"المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك ويلحد له، لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا كذا في الغرائب”
رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، سنن الغسل (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر1 صفحہ نمبر354) میں ہے:
"(فروع) المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيها يدفن كالمسلم.
قال ابن عابدين: قوله (يدفن) أي يجعل في خرقة طاهرة و يدفن في محل غير ممتهن لا يوطأ. و في الذخيرة و ينبغي أن يلحد له و لا يشق له لأنه يحتاج إلی إهالة التراب عليه و في ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقفاً بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضاً ۔۔۔ وقوله:(كالمسلم) فإنه مكرم و إذا مات و عدم نفعه يدفن، و كذلك المصحف فليس في دفنه إهانة له، بل ذلك إكرام خوفاً من الامتهان”
امداد الاحکام (طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی)جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 229 پر ہے:
"سوال: پراگندہ اوراق یا بوسیدہ قرآن مجید کو دفن یا دریا برد کیا جاوے یا کس طرح، نیز دیگر اوراق اردو، انگریزی اخبارات وغیرہ کو جن میں بعض مواقع پر آیات اور انگریزی کتب یا اخبارات وغیرہ میں تصاویر بھی ہوتی ہیں، کس طرح تلف کیا جاوے؟
جواب: قال في الفتاوى الهندية: المصحف إذا صار خلقاً ۔۔۔الخ
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کو دفن کر دینا چاہیے، جلانا نہ چاہیے، باقی اوراق جن میں قرآن کی آیت یا خدا، رسول کا نام ہو، اس میں سے خدا اور رسول کے نام کو نکال لینا چاہیے، ان کو دفن کر دیا جاوے، اور باقی کو جلا دینا جائز ہے، مگر قرآن اور خدا کے نام کو اس طرح دفن کیا جائے جس طرح بغلی قبر میں مردے کو رکھا جاتا ہے، تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے۔
ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل۔۔۔ التراب عليه، فهو حسن أيضاً، كذا في الغرائب، عالمگیريه”
فتاوی محمودیہ (طبع:جامعہ فاروقیہ کراچی) جلد نمبر3 صفحہ نمبر 544پر ہے:
"سوال(۱۱۸۵): قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو اگر کوئی آگ میں جلا دے تا کہ بے حرمتی سے بچ جائے تو اس میں کوئی گناہ تو نہیں؟
الجواب :اس میں کوئی گناہ نہیں لیکن پاک کپڑے میں لپیٹ کر محفوظ جگہ دفن کرنا اس سے بھی بہتر ہے”
© Copyright 2024, All Rights Reserved