• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

“شمس المعارف ” كتاب پڑھنا

استفتاء

ایک کتاب “شمس المعارف ”  ہے، اس کا پڑھنا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ کتاب”شمس المعارف” عوام کے لیے اور جو علم میں پختہ نہیں ان کے لیے پڑھنا جائز نہیں البتہ جو  علم میں پختہ ہیں ان کے لیے گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ کتاب”شمس المعارف”عملیات وظائف ،تعویذات،اسم اعظم اورحروف تہجی کے اثرات و خواص اورعلم رمل وجفر کے طریقوں پر مشتمل ہے،عوام الناس  اور جو لوگ علم میں پختہ نہیں  وہ لوگ چونکہ عملیات وظائف میں جائز ناجائز کی حدود و قیود کا خیال نہیں  رکھ پاتے نیزعلم رمل وجفر سیکھنا سکھاناجائز نہیں جبکہ مذکورہ کتاب ان علوم پر بھی مشتمل ہے  اس لیے عوام الناس اور علم میں غیر پختہ لوگوں کے لیے مذکورہ کتاب کا پڑھنا جائز نہیں البتہ جو حضرات  علم میں پختہ ہیں  وہ چونکہ   ان مذکورہ چیزوں میں صحیح و غلط کا فرق کرسکتے ہیں اس لیے   ان کے لیے مذکورہ کتاب پڑھنے کی گنجائش ہے۔ چنانچہ  خود علامہ بونی ؒ  نے اپنی مذکورہ کتاب کو پڑھنے کی یہی  تفصیل”شمس المعارف “میں  ذکر کی ہے۔

شمس المعارف (ص:03)  میں  ہے:

سميتُ هذا الكتاب المنتخب العديم المثل الرفيع العلم بشمس المعارف ولطائف العوارف ……….. فحرام على من وقع كتابي هذا في يده أن يبديه لغير اهله أو يبوح به فى غير محله فإنه إن فعل ذلك حرمه الله تعالى منافعه ومنعت عنه فوائده وبركته.

بذل المجہود فی حل سنن أبی داود  (4/ 429) میں ہے:

«(قال) رسول الله  صلى الله عليه وسلم: (كان نبي من الأنبياء) قيل: هو إدريس أو دانيال عليهما السلام  (يخط) أي أعطي علم الخط، فيعرف بتوسط تلك الخطوط الأمور المغيبة (فمن وافق) فيما يخطه (خطه) بالنصب أي خط ذلك النبي (فذاك) أي فذاك مصيب، وهو كالتعليق بالمحال.

قال الخطابي : إنما قال عليه الصلاة والسلام: ‌فمن ‌وافق ‌خطه فذاك، على سبيل الزجر، ومعناه: لا يوافق خط أحد خط ذلك النبي، لأن خطه كان معجزة، قال ابن حجر: ولم يصرح بالنهي عن الاشتغال بالخط لنسبته لبعض الأنبياء، لئلا يتطرق الوهم بما لا يليق بكمالهم، ومن ثم قال المحرمون لعلم الرمل وهم أكثر العلماء: لا يستدل بهذا الحديث على إباحته، لأنه علق الإذن فيه على موافقة خط ذلك النبي، وموافقته غير معلومة، إذ لا تعلم إلا من تواتر، أو نص منه عليه الصلاة والسلام، أو من أصحابه أن الأشكال التي لأهل علم الرمل كانت لذلك النبي، ولم يوجد ذلك، فاتضح تحريمه»

شامی  (1/ 110) میں ہے:

«(قوله: ‌والرمل) هو علم بضروب أشكال من الخطوط والنقط بقواعد معلومة تخرج حروفا تجمع ويستخرج جملة دالة على عواقب الأمور، وقد علمت أنه حرام قطعا وأصله لإدريس  عليه السلام  أي فهو شريعة منسوخة. وفي فتاوى ابن حجر أن تعلمه وتعليمه حرام شديد التحريم لما فيه من إيهام العوام أن فاعله يشارك الله تعالى في غيبه»

امداد الفتاویٰ (4/78) میں ہے:

سوال: علم رمل شرعاً جائز ہے یا نہیں؟۔احقر نے ایک رمل کی کتاب کے دیباچہ میں دیکھا ہے کہ مشکوۃ شریف میں ایک حدیث شریف ہے کہ جس سے علم رمل کا جوازثابت ہوتا ہے۔ اب حضور تحریر فرمائیں۔ یہ مذکورہ بالا بیان مصنف کا درست ہے یا نہیں؟یا کسی اور حدیث شریف کی کتاب میں علم مذکور کے جواز کا حکم ہے یا نہیں ؟

الجواب:یہ اس مصنف کی غلطی ہے ، اس حدیث کا مضمون یہ ہے کہ ایک نبی کچھ لکیریں کھینچا کرتے تھے ، سو جس شخص کی لکیریں ان کے موافق ہوں جائز ہے، ختم ہوا مضمون حدیث کا سواول تو یہ ثابت ہونا مشکل ہے کہ مراد اس سے رمل ہے گو اس میں بھی لکیریں ہوتی ہیں مگر ممکن ہےکہ اور کسی علم میں بھی یہی ہوں،دوسرے اگر رمل ہی مراد ہو تو رمل متعارف کے ان خطوط کے موافق ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور شرط جواز یہی موافقت ہے اور وہ معلوم نہیں لہذا جواز کا حکم ممکن نہیں ہے،اس لیے اس کی تعلیم و تعلم کو حرام کہا جاوے گا۔

احسن الفتاویٰ (8/231) میں ہے:

سوال: علم جفر کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ؟ بعض لوگ اس حکم کے ذریعہ شادی وغیرہ کا استخارہ بھی لیتے ہیں ، اس علم کے نتیجے کو صحیح سمجھنے اور یقین رکھنے سے ایمان پرکچھ اثر پڑتا ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔

 الجواب:اس جیسی کفریات کا سیکھنا سکھانا اور اسکے مدعی کے پاس کوئی بات پوچھنے جانا حرام اور اس کے نتائج کو یقینی سمجھنا کفر ہے۔

 تعريف علم الجفر والجامعة : هو عبارة عن العلم الاجمالى بلوح القضاء والقدر المحتوى على كل ما كان وما يكون كليا وجزئيا …….. حکمه حکم علم الرمل لانهما متحدان فی الغرض فهو حرام مثله. وقال ابن عابدين رحمه الله: وقد علمت أنه حرام قطعا وأصله لإدريس  عليه السلام  أي فهو شريعة منسوخة. وفي فتاوى ابن حجر أن تعلمه وتعليمه حرام شديد التحريم لما فيه من إيهام العوام أن فاعله يشارك الله تعالى في غيبه»

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved