- فتوی نمبر: 33-258
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > طلاق کا بیان > نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق
استفتاء
7 مئی بروز بدھ میرا اور میری بیوی کا لڑائی جھگڑا ہوا،میری بیوی اپنی بہن کے گھر چلی گئی،میں اپنی بیوی کو لینے گیا تو میری بیوی کی بہن نے کہا کہ “وہ ادھر نہیں ہے لہذا اب تم جاؤ” میں چلا گیا ،میں دوبارہ اپنے بھائی کے ساتھ گیا کیونکہ میں شراب کے نشے کی حالت میں تھا اس دوران میری سالی نے مجھے منہ پر تھپڑ مار دیا کیونکہ اس وقت مجھے چکر آرہے تھے، میرے بھائی کہہ رہے تھے تم جاؤ ہم مسئلہ حل کر لیں گے اور بھابھی واپس لے آئیں گے لیکن میری سالی نے میرے منہ پر تھپڑ مارا تھا اس بات پر تکرار ہوئی کیونکہ میں اس وقت اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا اور نہ ہی میری بیوی اس جگہ موجود تھی اور نہ ہی میری بیوی نے طلاق کے الفاظ سنے، میں نے غصے کی حالت میں بغیر کسی کا نام لیے طلاق” طلاق” طلاق”کہا ۔
دارالافتاء کے نمبر سے بیوی اور بیوی کی بہن اور شوہر کے بھائی سے وضاحتیں لی گئیں تو انہوں نے مندرجہ ذیل وضاحتیں دیں:
بیوی کا بیان:
میں جھگڑے کی جگہ موجود نہیں تھی اس دن جو کچھ بولا تھا میں نے نہیں سنا۔ اور میرے شوہر کبھی کبھار شراب پیتے ہیں۔
بیوی کی بہن کا بیان:
جھگڑے کے دوران **** (شوہر)نے دونوں ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ پنجابی زبان میں یہ کہا” میرے ولوں طلاق اے۔ترجمہ:” میری طرف سے طلاق ہے”اور مجھے وہ نشے میں نہیں لگ رہے تھے باقی میں اپنے گھر میں تھی مجھے نہیں معلوم کہ اس نے کچھ پیا ہے یا نہیں؟ اور جب اس کا بھائی اس کو جانے کا کہہ رہا تھا تو اس نے اپنے بھائی کو کہا کہ “میں تیرے سرے چڑھ کے طلاق دیواں گا” ترجمہ: “میں تمہارے ذمے لگ کے طلاق دوں گا”۔
شوہر کےبھائی کا بیان:
میرےسامنے طلاق کے الفاظ نہیں بولے اور مجھے نہیں معلوم کہ نشہ کیا تھا یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو چکی ہے،لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔
تو جیہ:شوہر کے بیان کے مطابق اگرچہ وہ نشے میں تھا لیکن نشے کی وجہ سے طلاق غیر معتبر اس وقت ہوتی ہے جب نشے کی وجہ سے کلام میں اختلاط اور ہذیان (اول فول بولنا) غالب ہو، مذکورہ صورت میں شوہر کا نشہ اس درجہ کو پہنچا ہوا معلوم نہیں ہوتا جیساکہ بیوی کی بہن اور شوہر کے بھائی کے بیان سے بھی معلوم ہورہا ہے۔
نیز طلاق کے الفاظ میں اگر چہ شوہر نے بیوی کا نام اور اس کی طرف اضافت نہیں کی لیکن معنیً اضافت پائی جا رہی ہے کیونکہ عام طور پر طلاق کا لفظ بیوی کو ہی بولا جاتا ہے اور مذکورہ صورت میں بھی سیاق و سباق سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ الفاظ بیوی کے لیے بولے گئے ہیں۔
شامی (4/432) میں ہے
أن المراد أن يكون غالب كلامه هذيانا، فلو نصفه مستقيما فليس بسكر فيكون حكمه حكم الصحاة في إقراره بالحدود وغير ذلك لأن السكران في العرف من اختلط جده بهزله فلا يستقر على شيء.
درمختار (4/443) ميں ہے:
[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل.
فتاویٰ شامی (4 /444 ) میں ہے:
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه لما في البحر لو قال: طالق، فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته اه.۔۔۔۔۔ ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اه. ويفهم منه أنه لو يقل ذلك تطلق امرأته، لان العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه،۔۔۔۔وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف الخ، فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف
بدائع الصنائع(3/295) میں ہے:
و أما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، و زوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved