• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

1۔شرعی اعذار کے بغیر معاہدے کی خلاف ورزی کرنا2۔جرمانہ،تنخواہ روکنا،یا ملازم سے کچھ رقم ضمامنت رکھوانا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ

بخدمت جناب مفتیان کرام ذیل کے کچھ مسائل کے بارے میں آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے:

1 . ملازمت کے معاہدے کی عدم پاس داری:

ایک مسئلہ یہ دریافت کرنا تھا کہ ہمارے پاس جو ملازمین کام کرتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ایک معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس اتنا عرصہ ملازمت کریں گےیا معاہدے میں یہ بات طے پاتی ہے کہ جب ہم ملازمت چھوڑیں گے تو آپ کو ایک دو ماہ پہلےبتادیں گے تاکہ آپ ہماری جگہ کسی اور کوملازم رکھ کر اور تربیت دے کرہمارا کام اس کے ذمہ لگا دیں اور آپ کے کام کا حرج نہ ہو۔لیکن عملاً اس معاہدہ کے برعکس ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہےکہ وہ ملازمین جب ہم سے اپنے مہینے کی تنخواہ لےلیتے ہیں تو وہ اگلے دننہیں آتے۔ایسے ملازم دو طرح کے ہوتے ہیں :

ایک: وہ جو دین سے دور ہوتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ کسی نے پانچ سویا ہزار روپے تنخواہ زیادہ بتائی تووہ وہاں چلے گئے۔

دوسرے: جو دین دارہوتے یا دین کے کسی مشغلے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ معاہدے کے بر خلاف ملازمت کو خیر باد کہہ کر دین کی کسی مشغولیت میں مشغول ہوگئے ہیں۔ حالانکہ وہ جب ہمارے پاس آتے ہیں توہم یہ بات واضح طورپر پوچھتے ہیں کہ آپ کا کوئی دینی تقاضا تو نہیں ہے اگر ہے تو اس کے لئے آپ کو کب وقت در کار ہوگا؟ تو وہ بتاتے ہیں فلاں تاریخ کومیرا فلاں دینی تقاضا ہےہم اس حساب سےاس کی رخصت کی ترتیب سوچ لیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ جو لوگ کسی دینی تقاضے کے لئے لوگوں کوتیار کرتے ہیں تو وان ان کے معاش کودین سے متصادم قرار دے کر انہیں معاہدے کی خلاف ورزی پر آمادہ کرتے ہیں اورجب ہماری طرف سے ملازم کو اس کےمعاہدے کے مطابق چلتے ہوئے چھٹی نہیں ملتی تو وہ ان ملازم پیشہ لوگوں کو یوں ترغیب دینے لگتے ہیں کہ تم ملازمت کوٹھوکر مارو اوراسے خیر باد کہو اور دین کے فلاں تقاضے میں لگ جاؤ اور واپس آکر تم کو الله تعالی اپنا کاروبار دے گاوغیرہ وغیرہ۔

جس کے نتیجےمیں ہمارے ساتھی تیار ہوجاتے ہیں۔اور وہ ہم سے کیے گئے معاہدے کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جس سےہمارے کام کا حرج بھی ہوتا ہے اور کاروبار مشکلات سے دوچار بھی ہوتا ہے۔1۔(۱لف)توخود ان کے لیےشرعی جواز کیا بنتا ہے؟(ب)اور ہمیں انکے ساتھ شرعا کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟دوسری بات جو عرض کرنی ہےوہ یہ ہے کہ(ج) ایسے ملازموں کو پابند کرنے کے لیےہم کیسا نظام بنائیں؟ اور اس کی کیا شکل ہوسکتی ہے؟ کہ وہ جب چھوڑ کے جائیں تو معاہدہ کا پاس کریں۔ مثال کے طور پر ہم ملازمین کو جرمانہ لگا سکتے  ہیں؟ یا ان کی ماہانہ جو تنخواہ بنتی اس میں سے کچھ رقم روک لیں؟کیا ہم  ان کی یہ رقم اپنے پاس بطور ضمانت کے رکھ سکتے  ہیں؟ کہ ہم  انکو بتادیں اگر آپ بدعہدی کریں گے یا بلاجوازچھوڑ کے جائیں گے تو یہ پیسے آپ کو نہیں ملیں گے۔ اس کے بارے میں شرعی توضیح فرمادیں!

.2 ملازمت کے معاہدے کی پاس داری کے لئے انعامی اسکیم:

ایک اور مسئلہ کی بابت بھی دریافت کرنا تھا کہ ہمارے پاس جو ملازمین آتے ہیں تو ان سے مشاہرہ اور معاہدہ طے ہوجاتاہے۔جو انہیں ہر ماہ مقررہ وقت پر ادا کردیا جاتا ہے لیکن ان کی فکر و ذمہ داری اور کار کردگی کو بڑھانے کے لئے اسی وقت ملازم کومطلع کیا جاتا ہے کہ ہم  آپ کی کارکردگی جانچیں گے اور اگر مہینے میں آپ کی کارکردگی اچھی رہی اور اگر آپ نے ایمانداری سے کام کیا اور بلاضرورت چھٹی  نہ کی تو ہماری کمپنی کی طرف سے آپ کو مثلا مبلغ دو ہزار روپے اضافی انعام ملے گا جس کا ماہانہ تنخواہ سے کوئی

تعلق نہیں ہوگا۔ تاہم  اگر آپ نےکمزور کارکردگی دکھائی یا مثلا چھٹیاں زیادہ کیں تو ایک چھٹی  پر آپ کے انعام میں سے 500 روپے ختم ہوجائیں گے دوچھٹیاں کریں گے تو ایک ہزار انعام میں سے کاٹے جائیں گے۔ اگر آپ کام پر اتنا لیٹ آئیں گے تو انعام سے اتنی مقررہ رقم کم ہو جاے  گی وغیرہ وغیرہ ۔ اس کی بابت مطلع فرمائیں کہ1۔(الف) کیا یہ طے کرنا اور اس طرح سے رقم کاٹنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

2۔(ب)یہ ہے کہ ملازمین کو معاہدے کے خلاف چلنے اور بغیر بتاے  ملازمت چھوڑ کے چلے جانے سے بچانے کے لئےکیا ہم یہ تدبیر کرسکتے  ہیں ؟ کہ(۴)انہیں بتا ئیں کہ ہم  ان کے اس ماہانہ انعام سے جس کا اجرت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ہر ماہ مثلا پانچ پانچ سو روپے یا کم وبیش رقم کاٹ کر الگ سے رکھ لیا کریں گے اور وہ تب ان کو ملے گی جب ان کی طرف سےملازمت کے معاہدے کی پاس داری یقینی ہوگی اور جب معاہدہ کےمطابق  وہ ملازمت چھوڑ کے جائیں گے اور بدعہدی کی صورت میں انعام کی یہ رقم ضبط ہوجاےگی انکو نہیں ملے گی۔ اس صورت کا شرعی حکم کیا ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔(الف) کسی شرعی یا طبعی عذر کے بغیر معاہدے کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں۔

(ب) باقی آپ کو ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے اس کا جواب اس پر موقوف ہے کہ آپ کے سامنے اس بارے میں کیا آپشنز( اختیارات ) ہیں ان کی تفصیل کے پیش نظر کوئی رائے دے سکتے ہیں۔

(ج)جرمانے کی یا تنخوا ہ روکنے  کی یا  کچھ رقم اپنے پاس بطور ضمانت کے  رکھنے کی صورتیں  اختیار کی جاسکتی ہیں  بشرطیکہ بعد  میں یہ رقم انھیں واپس کردی جائے چاہے بتا کر یا بغیر بتائے۔

2۔(الف)جائز ہے ۔

(ب)یہ صورت بھی جائز ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved