شریک کی اجازت کے بغیر مشتركہ پلاٹ فروخت کرنا
- فتوی نمبر: 31-278
- تاریخ: 31 دسمبر 2025
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت > پراپرٹی کی خرید و فروخت کے احکام
استفتاء
فریقِ اوّ ل كا موقف
میں نے ایک عدد پلاٹ نمبر 238 بلاک کیو واقع الجلیل گارڈن مبلغ 1845000 میں خرید ا اور 21/10/2 کو اپنے خالہ زاد زید کو اپنا شراکت دار بنا لیا اور ان سے مبلغ گیارہ لاکھ روپے وصول کیے، پلاٹ کے ذمہ واجبات کی مد میں میں نے اپنی گرہ سے تین مختلف اوقات میں 244200 مزید سوسائٹی کو ادا کیے ۔پلاٹ کی خريد کے وقت زید نے بتایا کہ وہ جو 11 لاکھ کی رقم مجھے دے رہے ہیں اس کا مقصد یہی ہے کہ کچھ منافع کے اضافہ کے بعد وہ اپنے بھائی کو مکان کی مد میں حصہ دے سکیں، میرا پراپرٹی کے لین دین کا ہی کام ہے اور کچھ عرصہ بعد کچھ اطلاعات اس قسم کی آنے لگیں کہ Q بلاک اور کچھ اور بلاکس کی زمین ہی الجلیل کے پاس نہیں ہے اور ایسے پلاٹ یا تو کسی اور پلاٹ میں ضم کردیے جاتے ہیں یا کٹوتی کرکے رقم واپس کردی جاتی ہے تو معاملات کو دیکھتے ہوئے میں نے مزید اقساط احتیاط کے طور پرسوسائٹی میں جمع نہ کروائیں اور پلاٹ کو مارکیٹ میں بیچنے کی کوشش شروع کردی مگر آفرز ادا شدہ رقم سے بھی کم کی آتی رہیں اور میں بہتر کی کوشش کرتا رہا ، وقت گذرتا گیا اور اگست 2023ء میں زید صاحب نے مجھے فون کرکے بتایا کہ ان کا بھائی ان سے اپنے حصے کی رقم کا سوال کررہا ہے میرے پاس آکر بتاؤ کہ کیا صورتحال ہے؟ ان کی اس کال کا مجھ پر یہ تاثر بنا کہ اب ان کو رقم کی ضرورت ہے اس دوران پلاٹ کو بیچنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی تھی ، سوسائٹی کے منفی تاثر کی وجہ سے پلاٹ بکنا بھی مشکل ہوگیا تھا نیز اس وقت تک عدم ادائیگی کی وجہ سے پلاٹ کینسل بھی ہوگیا تھا۔
مورخہ 23/9/14 کو میں نے مذکورہ پلاٹ کا سودا ادا شدہ رقم سے جو کہ اس وقت تک 2089293 تھی، مبلغ 7 لاکھ مائنس پر الجلیل کے ڈیلر کے ہاتھوں فروخت کرکے 270000 کا ٹوکن وصول کیا اور 2 عدد پوسٹ ڈیٹڈ چیک لے لیے، کل نقصان مبلغ 7 لاکھ کا ہوا جس کی تحریر بھی موجود ہے زید صاحب نقصان میں شراکت سے انکاری ہیں جبکہ دونوں کے حصے میں ساڑھے تین لاکھ فی کس کا نقصان بنتا ہے یہ بات قابل ذکر ہے کیونکہ میں پراپرٹی کا کام کرتا ہوں لہٰذا میں نے اپنی دانست کے مطابق پلاٹ بیچ دینے کا فیصلہ خود کیا اور زید صاحب سے ذکر نہ کیا بلکہ ان کو بیچ کر بتایا ۔ آپ سے استفسار ہے کہ اس نقصان کو برابر برداشت کیا جائے گا کیونکہ ہم نے برابری کی بنیاد پر پلاٹ لیا تھا یا پھر سارا نقصان میرے ذمے آئے گا؟
فریقِ دوم کا موقف
مجھے اپنے ایک معاملے کے بارے میں شرعی رائے لینی ہے جس کے لیے میں حاضر ہوا ہوں میں نے اپنے خالہ زاد بھائی خالد کے ساتھ ایک فائل Q238 الجلیل گارڈن میں شراکت کی، اس میں جو رقم 1845000 کی فائل خریدی اس میں سے 11 لاکھ کی رقم مجھ سے لی اور پھر یہ طے پایا کہ یہ پلاٹ کا جب قبضہ ملے گا تو اس میں سے جو فائدہ ہوگا وہ ہم آپس میں تقسیم کرلیں گے ان کو میں نے یہ بتایا تھا کہ میں نے اپنے بھائی کو موجودہ رہائشی مکان میں سے حصہ دینا ہے جس کے لیے میں یہ کام کررہا ہوں، گاہے بگاہے ملاقاتوں میں انہوں نے بتایا کہ حالات بہتر ہورہے ہیں، اگست، ستمبر 2023، کو میں نے انہیں فون کرکے پہلے یہ بات کی کہ مجھ سے بالمشافہ ملو اور بتاؤ وہاں پر کیا حالات ہیں؟ جس کے بعد میں نے ان کو کہا کہ بھائی پیسوں کا تقاضا کررہا ہے مجھے بتاؤ کہ وہاں پر کیا حالات ہیں اور اس کا کیا کرنا ہے میں نے کبھی بھی ان کو بیچنے کا نہیں کہا اس دوران میں انہوں نے پلاٹ کی پیمنٹ روک دی اور فائل بھی کینسل ہوگئی اور مجھے اس کا بتایا بھی نہیں ۔ستمبر کے آخر میں میرے پاس الفاکنسٹلنٹ کے لیٹر پیڈ پر ایک سِیل لیٹر لائے کہ یہ فائل میں نے نقصان میں بیچ دی ہےاور اس میں مجھے 7 لاکھ کا نقصان ہوا ہے،جس میں آدھا نقصان آپ کا ہے۔
میرا مؤقف یہ ہے کہ میں نے تم کو معاملے کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے بلایا تھا اور تم مجھے بتائے بغیر نقصان میں فائل باہر بیچ آئے ہو اگر تم نے فائل بیچنی ہی تھی تو پہلے میرا حق تھا ۔ میرے تعلقات الجلیل گارڈن کے مالکوں سے ہیں میں فائل اپنے نام کراکر ان سے پورے پیسے یا دوسری جگہ پلاٹ لے لیتا، اب یہ کام تو اول میری رضامندی اور علم میں لائے بغیر ہوا ہے اور تم نے فائل کینسل کروانے کا بھی مجھے نہیں بتایا تو میں اس نقصان کا ذمے دار نہیں ہوں۔
اب دریافت یہ کرنا ہے کہ بغیر بتائے فائل بیچ کر جو نقصان مجھے دینا چاہتے ہیں میں اس کا ذمے دار ہوں یا نہیں؟ میرے حساب سے میرا نقصان نہیں بنتا میں اپنے پورے پیسوں کا بلکہ جرمانے کا بھی حقدار ہوں میرا ان سے مطالبہ ہے کہ مجھے اس وقت کا سونا (10 تولے) یا ڈالر:130 یا 140 کا یا 4 مرلے کا پلاٹ یا 22 سے 23 لاکھ روپے دیں۔
نوٹ: یہ بات پیش نظر رہے کہ مذکورہ فائل خالد صاحب کے زیر تسلط رہی اور ان ہی کے زیر تسلط کینسل ہوئی (جس کا مجھے نہیں بتایا گیا) اور وہ مجھے بہتر ہورہا ہے کی رپورٹ دیتے رہے اور 3یا 5 ماہ سے بیچنے کی کوشش جو کررہے تھے (اپنی زبانی) اس میں بھی مجھ کو شامل نہ کیا حالانکہ یہ طے پایا تھا کہ ملکر پوزیشن لینے کے بعد بیچیں گے اور میرے بار بار بلانے کے باوجود وہ مجھ سے ملنے اور پلاٹ یا فائل کے بارے میں معلومات دینے نہیں آئے اور کبھی مجھے اوریجنل فائل نہیں دی اور نہ دکھائی اور جب میں نے کہا کہ میرا بھائی مجھ سے پیسوں کا تقاضا کررہا ہے تو وہ فائل کی نقصان والی فروخت کا سِیل لیٹر ہمراہ لیکر آئے جو میرے لیے ناقابل قبول تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں خالد صاحب کے لیے اپنے حصے کے ساتھ زید صاحب کے حصے کو ان کی اجازت کے بغیر بیچنا جائز نہیں تھا لیکن جب بیچ دیا ہے تواب زید صاحب کو تین اختیارات حاصل ہیں۔
نمبر۱: زید صاحب چاہیں تو اپنے حصے میں سودے کو ختم کریں اس صورت میں الجلیل گارڈن والوں کے لیے زید صاحب کے حصے کو استعمال میں لانا درست نہ ہوگا مگر یہ کہ وہ زید صاحب سے ازسر نو خریداری کا معاملہ کریں،نیز اس صورت میں الجلیل گارڈن والوں نے زید صاحب کے حصے کے جو پیسے خالد صاحب کو دیے ہیں ان کا مطالبہ وہ خالد صاحب سے کریں گے۔
نمبر۲: زید صاحب چاہیں تو اس سودے کو برقرار رکھیں اور جتنے میں سودا ہوا ہے اس میں سے اپنے حصے کے بقدر پیسے لے لیں۔
نمبر۳: زید صاحب چاہیں تو خالد صاحب کو اپنے حصے کی قیمت(مارکیٹ ویلیو) کا ضامن بنائیں یعنی مارکیٹ کے لوگوں سے اپنے حصے کی مارکیٹ ویلیو لگوائیں اور جو مارکیٹ ویلیو بنے وہ خالد صاحب سے وصول کریں جو کہ جتنے میں سودا ہوا ہے اس سے کم بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔
ان تین اختیارات کے علاوہ زید صاحب کو کوئی اختیار نہیں یعنی نہ وہ اپنے پورے پیسوں کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور نہ ۱۰ تولے سونے کا اور نہ دیگر کسی چیز کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
توجیہ: مذکورہ صورت شرکتِ املاک کی ہے اور شرکتِ املاک میں ایک شریک کے لیے دوسرے شریک کی اجازت کے بغیر اس کے حصے میں تصرف کرنا جائز نہیں ہوتا اس لیے خالد صاحب ، زید صاحب کے حصے کو فروخت کرنے کے مجاز نہیں تھے لیکن خالد صاحب نے زید صاحب کا پلاٹ بغیر اجازت بیچا ہے جس کی وجہ سے زید صاحب کو مذکورہ بالا تین باتوں کا اختیار ہے اور وہ چاہیں تو ان میں سے کوئی ایک بات اختیار کرسکتے ہیں۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (6/ 160) میں ہے:
(ومن باع ملك غيره فللمالك أن يفسخه، ويجيزه إن بقي العاقدان، والمعقود عليه، وله، وبه لو عرضا) يعني أنه صحيح موقوف على الإجازة بالشرائط الأربعة
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام (3/24) میں ہے:
واذا تلف المبيع بعد البيع والتسليم و قبل الاجازة في يد المشتري يكون الشريك غير البائع مخيرا ان شاء ضمن الشريك البائع حصته باعتبار انه غاصب وفي هذه الحالة يصح البيع ويكون الثمن له وان شاء ضمنه المشترى وهو يرجع على البائع بالثمن الذي دفعه اما البائع فلا يرجع على احد
الدر المختار مع التنویر (9/313) میں ہے:
(والاصح انه) اي: العقار(ىضمن بالبيع والتسليم و ) كذا (بالجحود في) العقار (الوديعة وبالرجوع عن الشهادة ) بعد القضاء وفي الاشباه : العقار لا يضمن الا في مسائل، وعد هذه الثلاثة
وفي الشامي تحته:قوله بالبيع والتسليم ) يعنى اذا باعه الغاصب وسلمه ، لانه استهلاك
شرح المجلہ (4/7) میں ہے:
ماده 1045 شركة ملك هو كون الشئي مشتركا بين اثنين فاكثر اي مخصوص بهما بسبب من الاسباب كاشتراء
قوله بسبب من الاسباب اي سواء كان اختياريا او جبريا كما ياتى التصريح به، وشمل ما لوكان السبب متعاقبا كما لو اشترى شئيا ثم اشرك آخر فيه كما في الدر
ماده 1075 كل واحد من الشركاء في شركة الملك اجنبي في حصة الاخر ليس واحد وكيلا عن الآخر فلا يجوز تصرف احدهما في حصة الآخر بدون اذنه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved