- فتوی نمبر: 15-17
- تاریخ: 14 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزارش ہے کہ میں اپنی بیوی کو ماہانہ دس ہزار روپے اس کے جیب خرچ کے لیے دیتا ہوں ،میرے چھ بچے ہیں، ان کو علیحدہ 8000 جیب خرچ دیتا ہوں، گھر میں کام کے لیے آنے والی ماسی کو علیحدہ 35 سو روپے ماہانہ ادا کرتا ہوں،ان سب کے باوجود کبھی اتوار کو باہر سے ناشتہ منگوانے کے لیے علیحدہ خرچہ دیتا ہوں، گھر میں ہر قسم کی گرو سری و کراکری میرے ذمے ہے ،خاندان میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات پر لین دین کے لیے خرچ بھی اپنی جیب سے کرتا ہوں ۔
واضح رہے کہ ان سب باتوں کو بتانا اس لئے ضروری تھا کہ آگے میں جو سوال آپ سے کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے حقائق آپ کے علم میں لانا ضروری ہیں ۔ 10000 ماہانہ جیب خرچ میری بیوی کا ہے، اس کے بعد اگر میری بیوی میری جیب سے مجھے بتائے بغیر اور پوچھے بغیر کبھی دو ہزار اور کبھی ایک ہزار نکال لےجس کا علم مجھے بار بار پوچھنے پر تقریبا ایک ہفتے بعد معلوم ہوا کہ یہ پیسے میری اہلیہ لے رہی ہے ،میرے پوچھنے پر اہلیہ مجھے حضرت ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قصہ سنا دیا کہ جب وہ ایمان لے کر آئی تھیں تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ میرا شوہر مجھے پورا جیب خرچ نہ دے تو کیا میں اس کی جیب سے بغیر اجازت پیسے نکال سکتی ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ بقدر ضرورت پیسے لے سکتی ہو۔ میرا سوال یہ ہے کہ میری ماہانہ کمائی تقریبا ایک لاکھ ہے اہلیہ کو جیب خرچ دینے کے باوجود کیا وہ اس کو اس طرح میرے بٹوے سے پیسے نکالنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں
عبدالقیوم خان
استفتاء
محترم مفتی صاحب ! السلام علیکم
ایک مسئلہ کے لیے رہنمائی درکار ہے مگر اس سے پہلے چند باتوں کی وضاحت فرمانا چاہتی ہوں ،میرے شوہر کی ماہانہ آمدن ایک سے دو لاکھ کے درمیان ہے شادی کو 16 سال گزر چکے ہیں، پہلے دس سال کسی بھی قسم کا جیب خرچ نہیں باندھا گیا حالانکہ تب بھی 70 سے 80 ہزار کے درمیان تنخواہ تھی۔ چھ سال پہلے ماہانہ جیب خرچ باندھا گیا جو 45 سو تھا، ساتھ ہی کہا کہ کام والی کے پیسے بھی انہی پیسوں میں سے ادا کرنا جو اس وقت پندرہ سو تھے، انہی پیسوں سے کمیٹیاں ڈالیں اور گھر کا کام کروایا جیسے الماریاں ،پینٹ اور فرنیچر وغیرہ ۔جیب خرچ بڑھ کر پچانوے سو ہوگیا ہے اور کام والی کے پیسے 35 سو ۔چھ ماہ پہلے شوہر سے کہا کہ اب کام والی کے پیسے آپ ادا کریں، گھر کے خرچ کی ذمہ داری شوہر پوری کرتے ہیں اور بچوں کا جیب خرچ جو پچاسی سو بنتا ہےشوہر ہی ادا کرتے ہیں ،جو جیب خرچ شوہر مجھے دیتے ہیں اسی میں سے موسمی لباس جوتے اور دوسری ضروریات پوری کرتی ہوں ،کوئی فنکشن جیسے عید شادی وغیرہ کے لئے الگ سے پیسے کبھی ملے اور بچوں کے لیے بھی کبھی علیحدہ سے پیسے نہیں دیتے نہ کبھی عید پر نہ شادی پر ۔اگر اصرار کروں اور دس ہزار مانگو تو بمشکل تین ہزار ملتا ہے ۔عید وغیرہ پر بچوں کے کپڑوں جوتوں پر تیس سے چالیس ہزار لگ جاتے ہیں جن میں سے بمشکل دس ہزار یہ خود سے ادا کرتے ہیں باقی جو میں نے خود سے جمع کیا ہوتا ہے وہ لگ جاتا ہے ۔جو جیب خرچ مجھے ملتا ہے اسی میں سے میں خود شوہر کے بھانجوں، بھتیجوں وغیرہ کے تحفے کے طور پر 500 کبھی ہزار مختلف موقعوں پر دے دیتی ہوں۔ اس کے علاوہ ذاتی طور پر لین دین ہو تو وہ بھی میرے ذمہ ڈال دیا جاتا ہے۔ شادیوں پر والدہ کے ساتھ کبھی آ دھا کبھی پورا لین دین کرتے ہیں ،مجھے کبھی الگ سے پیسے نہیں دیتے ،چاہے میرے بھائی کی شادی ہو یا بہن کی، اس کے علاوہ گھر کی دوسری ضرورتوں جیسے بستر، بیڈشیٹیں، کمبل یا کچن کے برتن کے لیے کبھی الگ سے پیسے نہیں دیتے ،اگر کبھی مانگیں تو سستی ترین چیزیں یا لنڈے سے اٹھاکر لے آتے ہیں، عموما بچوں کے کپڑے بھی وہیں سے آتے ہیں، شوہر کے بہن بھائی تمام اپنے گھروں میں کمائی کے لحاظ سے مضبوط ہیں، ان کا رہن سہن بھی ویسا ہے،مگر ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسٹینڈر کم رکھو ،گھر کے تمام کام اول تو شوہر کی ذمہ داری ہےمگر نہیں کرتے جیسے پینٹ،فرنیچر وغیرہ مگر دھیان نہیں دیتے، کمیٹیاں ڈال کر تمام کام کیے اور جو کمیٹیاں بچت کے نام پر ڈالیں وہ بھی شوہر کے استعمال میں ہیں ،اس کے علاوہ سولہ تولے سونا جو شادی پر ملا تھا وہ بھی اور اس کے علاوہ بھی کئی مرتبہ ایک، ایک دو ،دو لاکھ شوہر کو مختلف کاموں کے لئے دے چکی ہوں مگر وہ پیسے ابھی تک ادا نہیں ہوئے اور نہ ہی زیور واپس ملا ۔
میں نے آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اگر میں شوہر کی جیب سے گھریلو ضروریات کے لئے بغیر بتائے پیسے لے لوں، یہ میرے لئے جائز ہے کہ نہیں؟ یہ وضاحت کر دوں کہ اگر کبھی پیسے لوں گی تو ان پر یا ان کے بچوں یا گھر کی ضرورتوں پر خرچ ہوتے ہیں ،کبھی خود پر یا اپنے والدین یا بہن ،بھائیوں پر خرچ نہیں کیے ۔برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ میں شوہر کی اجازت کے بغیر ان کی جیب سے پانچ سو یا ہزار لے سکتی ہوں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں میاں اور بیوی کے بیانوں میں تعارض ہے ،کچھ بنیادی خرچہ میاں کے بقول وہ فراہم کرتا ہے جب کہ بیوی کے بقول ادا نہیں کرتا، ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں سے کون صحیح بات کہہ رہا ہے اور کون غلط بیانی سے کام لے رہا ہے۔ اگر شوہر بنیادی ضروریات میں وسعت کے باوجود مال خرچ کرنے میں جزرسی سے کام لیتا ہو تو بیوی ضرورت کے بقدر مال لے سکتی ہے، لیکن مذکورہ صورت میں اس بات کا تحقق ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنا ممکن نہیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved