- فتوی نمبر: 20-165
- تاریخ: 26 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات > عشر و خراج کا بیان
استفتاء
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ میں نے شہد کی مکھیاں قیمتا لے کر پال رکھی ہیں، سال میں ایک بکس سے دو بکس بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے لئے بکس، چھتہ اور موم کے تختے قیمتا حاصل کرتا ہوں، سال میں دو سے چار پانچ مرتبہ شہد حاصل کرتا ہوں، سال میں موسم کے لحاظ سے پھولوں کے لئے مختلف مقامات پر بھی لے کر جاتے ہیں، جگہ بھی کرایہ پر لینا پڑتی ہے اور مکھیوں کے لئے کافی چینی بھی خریدنی پڑتی ہے، اس پر بھی کافی خرچہ آتا ہے۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس شہد میں عشر یا نصف عشر واجب ہے یا یہ کاروبار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں زکوۃ واجب ہو گی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شہد میں عشر ہی واجب ہو گا۔ نصف عشر یا زکوۃ واجب نہیں۔
سنن ابی داؤد، کتاب الزکوۃ، باب زکوۃ العسل،حدیث نمبر 1601 ہے:
"عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: جاء هلال احد بني متعان إلى رسول الله ﷺ بعشور نحل له، وكان ساله ان يحمي له واديا يقال له: سلبة،” فحمى له رسول الله ﷺ ذلك الوادي”، فلما ولي عمر بن الخطاب رضي الله عنه، كتب سفيان بن وهب إلى عمر بن الخطاب يساله عن ذلك، فكتب عمر رضي الله عنه: إن ادى إليك ما كان يؤدي إلى رسول الله صلی الله عليه وسلم من عشور نحله فاحم له سلبة، وإلا فإنما هو ذباب غيث ياكله من يشاء”
(عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی متعان کے ایک فرد متعان اپنے شہد کا عشر (دسواں حصہ) لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے اس کے ایک سلبہ نامی جنگل کا ٹھیکا طلب کیا، رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنگل کو ٹھیکے پردے دیا، جب عمر بن خطاب ؓ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وہب نے عمر بن خطاب ؓکو خط لکھا، وہ ان سے اس کے متعلق پوچھ رہے تھے، عمر ؓنے انہیں (جواب میں) لکھا ”اگر ہلال تم کو اسی قدر دیتے ہیں، جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے یعنی اپنے شہد کا دسواں حصہ، تو سلبہ کا ان کا ٹھیکا قائم رکھو اور
اگر وہ ایسا نہ کریں تو مکھیاں بھی جنگل کی دوسری مکھیوں کی طرح ہیں، جو چاہے ان کا شہد کھا سکتا ہے)
مصنف عبد الرزاق، كتاب الزكوة، باب صدقۃ العسل، حدیث نمبر 6972ہے:
"۔۔۔عن أبي هريرة قال كتب رسول الله ﷺ إلى أهل اليمن أن يؤخذ من أهل العسل العشور”
(حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کی طرف یہ فرمان لکھا کہ شہد والوں سے عشر لیا جائے)
رد المحتار علی الدر المختار جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 312 پر ہے:
"قال الحصفکی: ( يجب ) العشر ( في عسل ) وإن قل ( أرض غير الخراج ) ولو غير عشرية كجبل ومفازة بخلاف الخراجية لئلا يجتمع العشر والخراج ( وكذا ) يجب العشر ( في ثمرة جبل أو مفازة إن حماه الإمام ) لأنه مال مقصود لا إن لم يحمه لأنه كالصيد
قال ابن عابدین: ( قوله في عسل ) بغير تنوين فإن قوله : وإن قل معترض بين المضاف والمضاف إليه ولا حاجة إليه فإن قوله : بلا شرط نصاب مغن عنه كما نبه عليه بقوله راجع للكل ۔۔۔۔ ( قوله : أرض غير الخراج ) أشار إلى أن المانع من وجوبه كون الأرض خراجية ؛ لأنه لا يجتمع العشر والخراج فشمل العشرية ، وما ليست بعشرية ولا خراجية كالجبل۔۔۔۔( قوله : إن حماه الإمام ) الضمير عائد إلى المذكور وهو العسل والثمرة والظاهر أن المراد الحماية من أهل الحرب والبغاة وقطاع الطريق لا عن كل أحد فإن ثمر الجبال مباح لا يجوز منع المسلمين عنه وقال أبو يوسف لا شيء فيما يوجد في الجبال ؛ لأن الأرض ليست مملوكة ولهما أن المقصود من ملكها النماء وقد حصل . ( قوله : لأنه مال مقصود ) أي مقصود للإمام بالحفظ ا هـ ط أو مقصود بالأخذ فلذا تشترط حمايته حتى يجب فيه العشر ؛ لأن الجباية بالحماية فهو علة لاشتراط الجباية أو من جنس ما يقصد به استغلال الأرض فهو علة للوجوب تأمل”
بحر الرائق شرح كنز الدقائق ، كتاب الزكوة، باب العشر، حكم تعجیل العشر(جلد نمبر2 صفحہ نمبر414 ) پرہے:
"( قوله : يجب في عسل أرض العشر ومسقى سماء وسيح بلا شرط نصاب وبقاء إلا الحطب والقصب والحشيش) أي يجب العشر فيما ذكر أما في العسل فللحديث {في العسل العشر} ولأن النحل يتناول من الأنوار والثمار ، وفيهما العشر فكذا فيما يتولد منهما۔۔۔ أطلقه فتناول القليل والكثير”
فتاوی عالمگیریہ، كتاب الزكوة، باب السادس فی زکاۃ الزرع والثمار(جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 406) میں ہے:
"ويجب العشر في العسل إذا كان في أرض العشر”
خیر الفتاوی جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 368 پر ہے:
"شہد کے اندر چاہے وہ جنگلی مکھی کا ہو یا پالتو مکھی کا عشر واجب ہے بشرطیکہ زمین عشری سے برآمد ہو۔ اگر شہد زمین خارجی سے برآمد ہو اس میں عشر واجب نہیں ۔
ثم انما یجب العشر فی اعسل اذا کان فی ارض العشر فاما اذا کان فی ارض الخراج فلا شیئ عليه (بدائع ۔ ج۲ ص ۶۲)
جنگلی اور پالتو مکھی کے اندر فرق تتبع روایات سے معلوم نہیں ہوتا، دونوں میں عشر واجب ہے۔ امام اعظمؒ کے نزدیک شہد کے اندر دیگر زرع و ثمار کی طرح نصاب شرط نہیں، قلیل و کثیر میں عشر واجب ہے”
© Copyright 2024, All Rights Reserved